تحریر:سلمان عابد
آج کی جدید ٹیکنالوجی کی دنیا میں ڈیجیٹلائزیشن کا پھیلاو فطری امر ہے ۔ رسمی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں غیررسمی ڈیجیٹل میڈیا جسے عمومی زبان میں سوشل میڈیا کہا جاتا ہے، اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔ مسئلہ محض اہمیت کا نہیں بلکہ یہ ایک متبادل میڈیا کی صورت اختیار کرگیا ہے ۔یہ میڈیا محدود لوگوں تک محدود نہیں بلکہ اس کی رسائی اور استعمال بالائی طبقات سے لے کر نچلے طبقات تک ہے اور اس میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔اس میڈیا نے لوگوں کو زبان بھی دی ہے اور سوالات اٹھانے کا موقع بھی فراہم کیا ہے اور اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ڈیجیٹل میڈیا نے سوالات کی دنیا پیدا کی ہے۔
ممکن ہے کہ سوالات کی نوعیت ، معیار، صلاحیت ، صحت یا سوالات کا طور طریقہ درست نہ ہو او راس کے اداب کی سمجھ بوجھ بھی نہ ہو۔لیکن لوگ سوالات کی مدد سے ریاستی ، حکومتی ، ادارہ جاتی سطح پر موجود سیاسی ، سماجی ، انتظامی ، معاشی، قانونی ، اخلاقی اور معاشرتی سوالات اٹھاکر پہلے سے موجود نظام کو چیلنج بھی کررہے ہیں اور اس کے مقابلے میں عملا ایک متبادل نظام کی آواز بھی اٹھارہے ہیں ۔البتہ فوج کے ترجمان کے یہ موقف بجا ہے کہ کچھ لوگ یاگروہ اس ڈیجیٹل میڈیا کو بنیاد بنا کر فوج ، فوجی قیادت اورفوج و عوام کے درمیان خلیج کو پیدا کرنے کی جو کوشش کررہے ہیں ،وہ ریاستی مفاد کے برعکس ہے ۔ان کے بقو ل دہشت گرد اورڈیجیٹل دہشت گرد دنوں ایک ہیں اور ان کے مفادات باہم مشترک ہیں ۔ڈیجیٹل میڈیا بذات خود کوئی بری چیز نہیں اور جدیدیت کے دور میں اس طرح کی جدید ٹیکنالوجی کا سامنے آنا سمجھ بھی آتا ہے ۔
البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہمیت اختیار رکھتا ہے اور ایک عملی بحث کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم ڈیجیٹل میڈیا کی افادیت کے باوجود اس سے مثبت فائدہ اٹھاکر آگے بڑھ رہے ہیں یا اسے ہم نے ایک مخالفانہ ہتھیار کے طور پر منفی مہم کی بنیاد بنالی ہے۔ پاکستان جیسی ریاست جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے اس میں ایک بنیادی نقطہ ڈیجیٹل دہشت گردی بھی ہے جو ریاست کے بقول دہشت گردی یا عملی طور پر دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری یا ریاست مخالف بیانیہ بنانے میں مدد کرتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کو ایک بڑے بحران کے طور پر پیش کیا جارہا ہے او راس سے نمٹنے کے لیے ریاستی وحکومتی سطح پر مختلف پالیسیوں یا قانون سازی کی بنیاد پرنمٹنے کی عملی کوشش کی طرف پیش رفت کی جارہی ہے۔
ایک بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ ڈیجیٹل میڈیا ایک ٹیکنالوجی ہے اور جو بھی چاہے انفرادی سطح پر یا اجتماعی سطح پر یا ریاستی و حکومتی سطح پر یا سیاسی جماعتوں کی سطح پر اسے اپنی حمایت اور مخالفت میں استعمال کرسکتا ہے ۔ایک بیانیہ جو آپ کو پسند نہیں، آپ کے سیاسی اور سماجی نظریات سے متصادم ہے، تو اس کا جواب ایک متبادل بیانیے کی صورت میں دیا جاسکتاجاتا ہے ۔ لیکن ریاست کے وائٹل انٹرسٹس کے خلاف بہتان تراشی ایک الگ ایشو ہے، عام سوشل میڈیا صارف ایسا نہیں کرتے، یہ کام منظم گروہ کسی مخصوص مقصد کے تحت کرتے ہیں۔ دنیا کی کوئی ریاست ایسے گروہوں کو برداشت نہیں کرسکتی۔ڈیجیٹل میڈیا یا سوشل میڈیا پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سب ٹھیک نہیں اور اس کی نگرانی کی بنیاد پر سیاسی اور قانونی گرفت ہونی چاہیے ۔کیونکہ اس میں علمی و فکری بنیادوں کے ساتھ ساتھ پروپیگینڈا مہم یا مخالفانہ کردار کشی سمیت فیک نیوز کا مسئلہ بھی ہے ۔ لیکن اس حوالے سے ابھی مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔ حکومت تنقید ، بے انصافی اورظلم کی نشاندہی کیا دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں؟ یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشا ن ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس ڈیجیٹل دہشت گردی کو بنیاد بنا کر علمی مباحث کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔ہمیں ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے قانونی معاملات کو واضح اور شفاف رکھنا ہوگا۔ خرابی چند افراد یا چند گروہ کی سطح پر ہوتی ہے جب کہ سوشل میڈیا ہر طبقہ کے لوگ استعمال کررہے ہیں۔ اگر ہم نے اس کا علاج انٹرینٹ کو بند کرنے یا اس میںتعطل پیدا کرنے یا اس سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا میں موجود ٹولز کو بند کرنا ہے تو اس سے یقینا مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اورزیادہ خراب ہوں گے ۔
قانون سازی ، سخت گیر پالیسیاں اور عملی اقدامات کی اپنی اہمیت ہوگی مگر کیا ہم نے اس ملک میں علمی و فکری بنیادوں پر تعلیمی اداروں کو بنیاد بنا کر تعلیم و تربیت اور موجودہ نصاب میں اس بحث کو شامل کرکے نئی نسل کی اس ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال میں کوئی راہنمائی کی یا کوئی علمی سطح پر اس کی حکمت عملی دیکھنے کو ملتی ہے ۔قانون تو ضرورت کے تحت بنالیا جاتا ہے مگر اس قانون کے بارے میں آگاہی اور ایک شہری کے طورپر کیا اسے اس کی ذمے داریوں سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اسکولوںسے لے کر کالجز تک اور کالجز سے لے کر جامعات تک یا دینی مدارس تک ہم نے ڈیجیٹل میڈیا یا سائبر پالیسی کے بارے میں کوئی جامع حکمت عملی کو ترتیب دیا ہے۔طالب علم تو کجا اساتذہ کی تربیت میںاس اہم امور کو کیا شامل کیا گیا ہے کہ ان کی تربیت کی بنیاد پر بچوں کی تربیت کا بندوبست کرسکیں ۔گالم گلوچ، الزام تراشیاں ، کردار کشی ، مخالفانہ منفی مہم یا تیزی سے بڑھتا ہوا عدم برداشت کا کلچرکے مقابلے میں علمی و فکری مباحث یا مکالمہ کے کلچر کو یا دوسروں کے مخالف یا مختلف نقطہ نظر پر اعتدال پر مبنی رویوںکو فروغ دیا ہے ۔ مسئلہ نوجوانوں کا ہی نہیں بلکہ معاشرے کے مجموعی مزاج میں ہمیں شدت پسندی پر مبنی رجحانات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ یہ عمل سیاست ، مذہب سمیت سب جگہ پر غالب ہے ۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک منفی یا مخالف بیانیہ کا مقابلہ بھی سچائی یا حقایق کے بجائے منفی یا مخالف حکمت عملی کے تحت ہی کرنا چاہتے ہیں جو معاشرے میں مزید انتشار کو پیدا کرتا ہے۔ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا پر جو ایک بڑے ردعمل کی سیاست غالب ہے یا لوگوں میں ریاستی و حکومتی نظام پر غصہ ہے، ہم اس کا علاج بھی عملا تلاش نہیں کرسکے ہیں ۔ حکمرانی کے نظام میں پھیلی ہوئی سیاسی ، قانونی اور معاشی تفریق یا لوگوں کے بنیادی حقوق سے انحراف کی پالیسی کی پامالی ، سیاسی اور معاشی استحصال، مخالف آوازوں کو قبول نہ کرنا یا اسے دشمنی اور بغاوت کارنگ دینا بھی مسائل کا حل نہیں ۔کیونکہ جب ہمارا ریاستی و حکومتی نظام لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی نہیں بنائے گا توطبقاتی تقسیم گہری ہوگی ۔ ہمیں ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا میں ذمے داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے لوگوں اور کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے قومی سطح پر ایک بڑی ڈیجیٹل لٹریسی پر مبنی مہم کی ضرورت ہے ۔یہ کام علمی وفکری ادارے یا تعلیمی محاذ پر ہی ممکن ہے ۔اس محاذ پر علمی اور عملی دونوں محاذوں پر شفاف انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کا علاج بھی تعلیمی ماہرین کی مدد سے تلاش کیا جائے۔ وفاق اور صوبوںکی سطح پر قائم ہائرایجوکیشن کمیشن ،جامعات سے جڑے وائس چانسلرز، تعلیمی ماہرین ، میڈیا کے سنجیدہ افراد یا دینی و سیاسی اہل دانش کو بنیاد بنا کر لوگوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ دینی ہوگی ۔تعلیمی اداروں یاجامعات سے نکلنے والی تجاویز اور پالیسیوں کو بنیاد بناکر ریاست یا حکومت کا نظام جب پالیسیاں یا قانون سازی کرے گا تو اس کے مثبت نتائج ملیں گے او ران معاملات سے نمٹنے کی ساکھ بھی قائم ہوگی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو محض قانون سازی کچھ نہیں دے سکے گی۔