انٹرویو: غلام مصطفی چوہدری
تعارف
عندلیب بھٹی معروف افسانہ، کالم و مقالہ نگار اور مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک استاد، شخصیت ساز اور انسانی رویوں کی ماہر شخصیت ہیں۔ ان کے ناولوں اور افسانوں پر مشتمل پانچ مجموعے اب تک شائع ہو چکے ہیں اور چھٹا مجموعہ جلد ہی شائع ہونے والا ہے۔ وہ اس وقت کئی پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں جن میں ڈرامہ نویسی اور ان کے ایک افسانہ مکروہ لوگ پر ویب سیریز بھی بن رہی ہے جبکہ ایک کہانی ”تمنا” پر فلم لکھنے اور ڈائریکٹ کرنے کا پراجیکٹ بھی ہے۔ انہوں نے ایم اے ارد و ادب کے ساتھ ایم فل کیا ہوا ہے اور پی ایچ ڈی پر کام کر رہی ہیں جبکہ وہ کئی مقالہ جات بھی لکھ چکی ہیں۔
عندلیب بھٹی معروف افسانہ، کالم و مقالہ نگار اور مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک استاد، شخصیت ساز اور انسانی رویوں کی ماہر بھی ہیں۔ ان سے ماہنامہ ”ہیومن رائٹس واچ” کی خصوصی نشست میں ہونے والی گفتگو قارئین کیلئے پیش کی جا رہی ہے۔
سوال : سب سے پہلے ہمارے قارئین کو اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بتائیں ،آپ کہاں پیدا ہوئیں۔ نیز اپنی فیملی کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔ ؟
جواب :میرا نام عندلیب بھٹی ہے۔ میرے والد کا نام چودھری محمد صدیق اور والدہ کا نام حمیدہ بانو ہے۔ میرے دادا چودھری رحمت علی راجپوت بھٹی تھے۔ وہ لاہور کے رہنے والے تھے۔(تقسیم پاکستان سے پہلے) فیروزپور کے قریب دو بڑے گائوں کے مالک تھے۔ میرے دادا کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھیں۔ تقسیم پاکستان سے کافی پہلے ہی بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں لاہور شہر میں دھرمپورہ جو آج کل مصطفی آباد کہلاتا ہے نہر کے بالکل قریب آ بسے تھے۔ میرے تایا ضلعدار تھے۔ میرے بابا ستر کی دھائی میں ریلوے کے اعلی عہدے پر فائز تھے۔ بعد ازاں ملازمت چھوڑ کر گوجرانوالا شہر کے پاس کامونکی میں زمینداری شروع کی۔ میرے نانا قانون دان تھے۔ ایک ماموں لاہور کے بڑے ڈگری کالج کے پرنسپل تھے۔ مجھ سے بڑی تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میں گذشتہ دو برس سے شہر پنڈی میں رہائش پذیر ہوں۔ میرے شوہرطارق بھٹی کا تعلق اکاونٹس کی فیلڈ سے ہے۔ میرے دو بیٹے عفاف بھٹی اور سکندر بھٹی تعلیمی مدارج طے کر رہے ہیں۔
سوال:آپ نے کن کن تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ،نیز آپ کا تعلیمی سفر کیسا رہا ؟
جواب: میری پیدائش اس حویلی میں ہوئی جو نہر کے قریب تھی۔ زندگی کے دس برس اور ابتدائی تعلیم وہیں کے لوکل سکول میں شروع ہوئی۔ جو جونیئر ماڈل سکول کہلاتاتھا۔ عمر کے گیارہویں برس تک میراگھرانہ ماڈل ٹائون میں شفٹ ہو گیا۔ یہاں ڈویژنل پبلک اورماڈل سکول ماڈل ٹائون سے میٹرک ہوا۔ میرا کالج کا سفر ماڈل کالج ماڈل ٹاون ،اپوا کالج شادمان،اور لاہور کالج جیل روڈ پر محیط رہا۔ بعد ازاں ایم اے اردو ادب پنجاب ہونیورسٹی (اولڈ کیمپس) انارکلی سے مکمل ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی نے مجھے مقالہ لکھنے کے لیے چنا اور ایم۔ اے پار ٹ ٹو میں ملک کے پہلے رباعی کے مایہ ناز شاعر عمر فیضی پر مقالہ لکھا۔ ایم فِل اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ہوا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کئی بار شروع ہوئی اور ابھی تک پراسس میں ہی ہے۔ اب یہ کہ میرا تعلیمی سفر کیسا رہا ؟ باقاعدہ ٹیوٹر شپ کا گھر میں رواج نہیں تھا اِس لیے میٹرک تک حساب کے مضمون کی وجہ سے بہت پریشانی کا سامنا رہا۔ سکول کے وقت سے ہی اردو سے مجھے شغف ر ہا۔ پہلی ہی بار میں بنا سپلی کے حساب کے مضمون کو ساٹھ نمبروں سے پاس کر لینا میرے لیے حیران کن تھا۔ کالج میں اردو لازمی کے ساتھ اردو ادب ،تاریخ اور نفسیات کے ساتھ فلسفہ اور فارسی کو چنا۔ اِس کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں ڈراموں میں حصہ لینا اور ترنم سے کچھ بھی پڑھنا شامل رہتا۔میں کسی نا کسی عہدے پر بھی رہا کرتی۔ گریجویشن میں فلسفہ کو چھوڑنا پڑا مگر صرف ڈگری کی حد تک ، لائبریری کی حد میں وہ شامل رہا۔ یہاں بھی اردو لازمی کے ساتھ اردو ادب اور نفسیات اور گزشتہ مضامین جاری رہے۔ پنجاب ہونیورسٹی نے میرے لیے اپنے دروازے کھولے۔ تھیسس لکھنے کا موقع دیا۔ کالج کے زمانے میں ہی مرزا ادیب، شہر ت بخاری منیر نیازی صاحب سے بہت تعلق رہا۔ ان بڑے لوگوں نے دستِ شفقت رکھا۔ میں نے نثر سے پہلے شاعری کو اپنایا تھااِس لیے کالج کے دوران ہی کچھ عرصہ محسن نقوی صاحب سے علم لیا اور جب نثر شروع کی تو بابا جی اشفاق احمد تک بھی جنون لے گیا۔ پہلی شاعری منیر نیازی صاحب اور نثر بابا جی اشفاق احمد صاحب کے سامنے پیش کی اور جو تعریفی کلمات ان بڑے لوگوں نے ادا کیے میری سب سے بڑی ڈگریاں وہی ہیں۔ میرا تعلیمی سفر بہت خوشگوار رہا۔ ماسوائے اِس کے کہ کچھ ساتھی ایسے تھے جو نا خود پڑھنا چاہتے تھے اور میرے جنون کے آگے روکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔
سوال :آپ کی ادب کی دنیا میں آمد کب اور کیسے ہوئی ؟
جواب: میرے نانا وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب ِکتاب شاعر بھی تھے۔ ماموں ادیب اور استاد تھے۔ جینز کی حد تک ادھر سے بھی معاملہ ہو سکتا ہے۔ میں ادیب کے ساتھ ایک تخلیق کار ہوں۔ اور میرا ماننا ہے کہ تخلیق کار بنتا نہیں۔ بنا ہوا ہوتا ہے۔ دس برس کی عمر میں ہی مجھے موسیقی ،شاعری اور کہانیوںمیں کشش محسوس ہوتی۔کبھی چاہت اور کبھی بڑے بہن بھائیوں کے مختلف مشاغل کی وجہ سے میں کہانیوں اور موسیقی کے قریب تر ہوتی چلی گئی۔ علمی ادبی گھرانہ ہونے کی وجہ سے گھر میںکتابوں کا ایک انبار تھا۔ بڑے بہن بھائیوں کے کورس کی کتابوں میںسے بانگِ درا بھی اٹھا کر بیٹھ جایا کرتی۔ یوں کالج تک آتے آتے نا صرف اقبال اور غالب بلکہ مرزا، سودا ، کرشن چندر،جیسے متقدمین ہوں یاپھر عبداللہ حسین ،کرنل محمد خان ،غلام عباس جیسے متوسطین نثر نگار ہوں ،منیر نیازی ہوں ،ناصر کاظمی ہوں ،آتش ہوں ،غالب ،میر تقی میر ،درد یا مرزا رفیع سودا جیسے شاعر ہوں۔ شفیق الرحمن ہوں۔ یہاں تو نام لکھنے لگوں تو باقی سب رہ جائے گا۔ سبھی کی تخلیقات اپنے حصار میں لے چکی تھیں۔ کالج میں داخلہ ہوتے ہی اپنے بیج کی میں سب سے پہلی طالبہ تھی جس نے راجہ گدھ ،آگ کا دریااور دیوان غالب اشو کروایا اور جب رموز بے خود ی کے ساتھ کلیات اقبال بھی میرے پاس بہت وقت رہیں اور
جس روز ظاہر کی آنکھ سے نا تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ ودل و ا کرے کوئی
پڑھ لیا تو طے ہوا۔یہی میرا رستہ ہے۔ جب اقبال کا شعر اس کی تفسیر دے گیا تو میری سوچ کو بھی راستہ مل گیا۔ اللہ کے کرم کے صدقے غیر نصابی سرگرمیوں کے سلسلے میں منیر نیازی ،شہر بخاری ،مرزا ادیب ،محسن نقوی ،جیسے بڑ لوگ ملتے گئے اور سبھی نے اپنے علم کی دروازے مجھ پر بند نا کیے۔ یوں تومیٹرک کے وقت میںنے پہلی کہانی لکھی تھی۔ مگر باقاعدہ پہلی شاعری اور نثر فرسٹ ائیر میں لکھی او ر وہ پبلش بھی ہوئی۔ ایک میگزین تفاخر میں پہلی کہانی فرسٹ ائیر میں چھپی۔ یہ قسط وار ناول تھا۔ جو ترامیم کے ساتھ بعد مدت میرے ناول ”جسے غم سمجھ رہے ہو” کے نام سے فکشن ہائوس نے شائع کیا۔
سوال۔ آپ کو افسانہ ،ناول اور کالم لکھنے کا شوق کیسے اور کب پیدا ہوا ؟نیز آپ نے اِس شعبے کو ہی کیوں اپنے لیے موضوع سمجھا۔ ؟
جواب۔گذشتہ سوال میں موجودہ سوال کے کچھ حصے شامل ہو گئے۔تو جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ کہانیاں میرے ارد گرد چلتی رہتی تھیں۔ دس گیارہ برس کی عمرمیں ہی مجھے پیش آنے والے واقعات اور مختلف چیزیں بے چین کیے رکھتیں۔ میں ایک بچہ تھی۔ مجھے سمجھ نہیں لگتی کہ میرے اندر ایک بے چینی اور بے کلی کیوں ہے ؟ کیوں میرا دوسرے بچوں کی طرح روٹین کے کھیل کود میں دل نہیں لگتا۔ جسے میں نے لوگوں کی آسانی کے لیے اپنے مجموعے منکر میں ایک افسانے ”دل نہیں لگتا” کی شکل میں پیش کیا۔ دنیاوی طور پر میری بے چینی اور بے کلی کو کتاب اور کہانی تسکین مہیا کرتی تھی۔ کالج تک جاتے جاتے میں وہ کتب پڑھ چکی تھی جو لوگ تیس برس کی عمر میں اٹھاتے ہیں۔ یہاں یہ بات بتانا بہت ضروری ہے کہ اتنا اہم ادب پڑھنا اور بات ،سمجھنا اور بات ہے۔ مگر میرے اندر قدرت کی طرف یہی خام مال تھا۔ فرسٹ ائیر تک آتے آتے میں نے کہانی اور افسانے کی جانب قدم بڑھا دیا تھا۔ تب مجھے خیال آیا کہ یوں نہیں۔ مجھے باقاعدہ اِس کا فن بھی سیکھنا ہے۔ تب ہی اردو ادب میں ماسٹرز کا سوچا۔ شاعری کا آغاز بھی ساتھ ہی ہوا۔ منیر نیاز ی صاحب میرے استاد تھے۔ فیس کے طور پر مجھ سے اپنی شاعری ترنم میں سنا کرتے۔ ماسٹرز کے فورا بعد بلکہ پڑھائی کے دوران ہی میںنے پڑھانا شروع کر دیا۔ مقالہ لکھنے کے دوران پارٹ ون کی طالبات کو پڑھایا۔ جب میں نے اخبار میں کچھ عرصہ گزارا تو وہاں اصرار پر کالم لکھ کر دیے اور یوینورسٹیز اور کالجز کی طرف سے اصرار آیا تو مضمون نگاری ،فیچرز کی صنف میں لکھا۔ اب رہی یہ بات کہ میں نے اِسی شعبے کو کیوں چنا۔اگر مختصر کہا جائے تو بات یوں کہ کہانیوں نے مجھے چن لیا تھا۔ ہر انسان کو اللہ نے کچھ مختلف صلاحیت دے کر بھیجا ہوتا ہے۔ مجھے اِسی کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ جب کہ ہمارے معاشرے کے لحاظ سے ایک عورت ہونے کے ناطے یہ ایک مشکل ترین امر ہے۔ یہاں عورت کا قابل ہونا پسندیدہ نہیں۔ آج جب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ کے فلاں مکالمے نے ہماری کوئی الجھن حل کر دی تو مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے مقصد پر ہوں۔
سوال۔ ایک ادیب کو لکھتے ہوئے کِن باتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے ؟
جواب۔ادیب معاشرے کا طبیب ہوتا ہے۔ سب سے پہلے لکھنے والے کے پاس لکھنے کا فن ہونا چاہیے۔ اِس میں اسے ڈگری کے ساتھ ساتھ اضافی تعلیم بھی لینی چاہیے۔گرائمر سے لے کر جملے کی بنت اور اسلوب کے ساتھ ساتھ تکنیکی پہلو روشن ہونے چاہیے جو کہ ماسٹرز ڈگری کے بنا ممکن نہیں۔ اس کے بعد ادیب تب ہی تخلیق کار بن سکتا ہے جب اس کے پاس زندگی کا علم بھی ہو۔ اس کے پاس انسانی نفسیات کا علم ہو۔ اسے ہر ہونے والے واقعے میں چھپے ہر کیوں کا جواب دلیل کے ساتھ معلوم ہو۔ اور پھر اِس کے بعد اس کا فن اور اسلوب جس میں اس کی جتنی محنت اور ریاضت ہو۔ یہ دنوں کی نہیں برسوں کی بات ہے۔ بقول اقبال
ظاہر کی آنکھ سے نا تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہ ودل وا کرے کوئی
اور ادیب ظاہر کی آنکھ کا تماشا نہیں ہوتا۔ نا ہونا چاہیے۔ ادیب کو پتا ہونا چاہیے کہ ہر صنف کا فارمولہ کیا ہے۔ نثر اور شاعری۔ اِس کے بعد نثر ہے تو ناول ،افسانہ ،مضمون ِکالم،فیچر ،تبصرہ ،تنقید، جس بھی صنف میں لکھنا چاہے ،اس کی تکنیک، زندگی کا علم اور پھر اسلوب۔ یہی سلسلہ شاعری کے لیے بھی۔ شاعرکو اوزان کا مکمل علم ہو۔ اِس کے بعد زندگی کا علم ،غزل ،نظم ،مخمس ،مسدس ،رباعی ،قطعہ ،مثنوی۔ غرض جس کو بھی چنے اس کی تکنیک اور اوزان کا علم ہو۔ اس کے بعد اس کا خیال اور اسلوب۔ ادیب کے پاس کہنے کے لیے جو بھی خیال ہو وہ ماورائی اور اس کی من بیتی نا ہو۔ وہ معاشرے کا طبیب ہے۔ یہ بات مخفی نا رہے۔
سوال:ہمارے ادب میںترقی پسندی، جدیدیت اور مذہبی تشخص پر ملے جلے رحجان پائے جاتے ہیں۔ مخالف رحجانات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اِس منظر نامے کے بارے میں آپ کے کیاخیالات ہیں؟
جواب:پرانی بات ہے ترقی پسندی کے رحجانات نقوش میں چھپنے والے کچھ مضامین اور افسانوں میں دکھائی دیے۔ پریم چند کی سادہ کہانیوں میںترقی پسند رحجانات دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو ا ن کہانیوں کو ابھی تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یوں 1939ء میں اِس تحریک کا باقاعدہ اور کھلم کھلا آغاز ہو گیا۔ وہ بات جو پریم چند ڈھکے چھپے انداز سے بیان کر رہے تھے اس تحریک کی صورت اختیار ہوئی۔یا اختیار کی گئی۔ترقی پسندغریب عوام اور معیشت کو ادب میں شامل کرنے کی بات کرتے تھے۔ ترقی پسندوں کا اہم نعرہ ادب برائے زندگی تھا۔ انھوں نے کیسے کہنا کی جگہ کیا کہناکو اہم کہا اور سبھی اصناف میں لکھا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب کے فنی ،اسلوبی و اسلوبیاتی پہلو کی جگہ صرف ادب کے فکری پہلو کو اجاگر کیا۔ یا اہم سمجھا۔ میری رائے میں کوئی عمل سو فیصد درست نہیں ہو سکتا۔ یہاں بھی یہی بات ہے۔ ادب میں جیسا کہ میں نے اپنے گذشتہ جوابات میں گاہے بگاہے کہا کہ ادیب کو اپنے معاشرے سے لے کر دوسرے معاشروں سمیت زندگی کا علم ہونا چاہیے۔ زندگی جیسے آگے بڑھتی ہے نئے ترجیحات اور رحجانات انسانی زندگی کے دائراہ کار میں شامل ہوتے ہیں۔ ادیب ان سے جدا رہ نہیں سکتا۔اسے رہنا بھی نہیں چاہیے۔ معیشت اور مزدور کو ادب میں جگہ نا ملے یہ بالکل غلط ہے۔ مگر صرف اسی کی جگہ ہو یہ بھی غلط ہے۔ دوسری بات کچھ بھی کہنے کے لیے کو ئی بھی پابندی نا ہو یہ بھی غلط ہے۔ فن اپنی جگہ اہم ہے اور خیال اپنی جگہ۔ یہ دونوں مل کر ہی کسی جگنو کو روشنی کا ہالہ بنا سکتے ہیں۔ اگر ادیب کو یہ علم نا ہو کہ اس نے جو کہنا ہے وہ کیوں اور کیسے کہنا ہے تو الفاظ کے مجموعے کو جملہ یا کسی بھی جملے کو ادب ،اور کسی بھی خیال کو سچائی نہیں کہا جا سکتا۔ اگر وہ اپنے مروجہ معیار اور جدید رویوں پر پورا نہیں اترتے۔ ترقی پسند رحجانات پر بھی دوسرے معاشروںکے اثرات غالب آئے تو ایک طبقہ مخالفت کا ابھرا۔ میری نظر میں جدیدیت کو ترقی پسندی کا پارٹ ٹو کہا جاے تو غلط نہیں ہو گا۔ خیر اپنی اِس بات کو میں سوال کے اختتامیہ پر مکمل کروں گی۔ Modernity کے زیر اثر بہت سے پہلوئوں میں ایک Modernism بھی تھا۔ یعنی روشن خیالی جدیدیت سے پہلے ادب میں شرعیت اور خدا کسی نا کسی رنگ میں موجود تھے۔ مگر عالمی جنگ کا ردِعمل تھا کہ رینی ڈی کارٹ نے کہا کہ
I think therefore I am یعنی بات سیدھی عقل پر آ گئی۔ انسان کو اس کی سوچ پر مشروط کر دیا گیا۔ جان لاگ ، ڈیوڈ ہیوم اور برکلے اِس سے دو قدم آگے بڑھے اور انسان اور کائنات رشتے کو عقلی ہی نہیں تجربی نظر سے دیکھنے لگے جبکہ رومانیت پسندتحریک کے نتیجے میں ترقی پسند اور ترقی پسند ی اور مذہبی شدت پسندی کے نتیجے میں جدیدیت پروان چڑھی۔ ہمارے ادب میں پچھلی صدی میں یہ تحریکیں پنپتی رہی ہیں۔ تقسیم ہند کے رحجانات میں کیونکہ وہاں بسنے والی مختلف اقوام میں مذہبی شدت پسندی عروج پر تھی۔اِس لیے رومانویت اور اِس کی شدت میں جب ہاری اور مزدور طبقے کو جگہ دینے کی کوشش کی گئی اور اِسی عالمی تبدیلی میں جدیدیت نے سراٹھایا اور آج مذہب اور ترقی پسندی کے ساتھ جدیدیت ادب میں اپنی اس اشکال میں ہی ہیں۔یعنی اپنی شدت میں۔ جس کی وجہ سے انسانی نفسیات کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ ترقی پسند انسان کے اندر پنپتی گنگناہٹ کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ جدیدیت صرف تجربے کی بات کریں تو انسان کے اندر محبت کرنے کا جذبہ کدھر جائے گا۔ میری نظر میںایک عمدہ تخلیق کار کو جہاں ادب کی اصناف کا مکمل ہونا چاہیے وہیں وہ anthropology (علم بشریات) کے علم سے بھی واقف ہو۔ تا کہ وہ بشری کمزوریوں کو معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ دیکھ کر ان کے درمیان پیدا ہونے والی تکالیف کے حل پر لکھ سکے۔
سوال: لوگوں کا خیال عام ہے کہ افسانہ، ناول اور تنقید میں اب قابل ذکر اور نمایاں نام سامنے نہیں آرہے، جبکہ افسانہ و ناول نگاری اور اردو تنقید زوال کا شکار ہے اگر ایسا ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟
جواب : ناول ،افسانہ ،تنقید یہ ادب کی اہم اصناف ہیں۔ افسو س کی بات یہ ہے کہ ادب سمیت اور بھی بہت سی چیزوں کے نام تو موجود ہیں۔ مگر ان کا ماخذ وہ نہیں جو کہ دراصل ہونا چاہیے۔ میںنے بار بار اپنے ہر جواب میں ایک بات کہی کہ تکنیک اور فنی علم ادیب کی پہلی شرط ہے۔ کچھ بھی لکھ دینا اور پھر اسے ادب بھی کہہ دینا یہ ہی وہ تکلیف دہ امر ہے جس کی وجہ سے یہ اصناف بھی اپنا معیار کھوتی جا رہی ہیں۔ تنقید کے ننھے اثرات مولانا محمد حسین آزاد کی آب حیات میں پائے گئے ،مگر اِس کا آغاز تو بہر حال غالب کی نثر کو ہی جاتا ہے۔ اِس کے بعد کیسے کیسے تنقید نگار اردو ادب کو ملے۔کلیم الدین صاحب ،نور الحسن اور ڈاکٹر عبادت بریلوی اور بھی کئی بڑے نام ہیں۔تو ان میں سے کسی کی تحریر میں تنقید کی صنف کا معیار نہ کھو سکا۔ تنقید کے نام پر گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ سمجھ لیا گیا کہ نقاد کا کام تصنیف میں سے کمیاں اور خامیاں ڈھونڈنی ہیں۔ افسوس کے ساتھ۔کہ نقاد کو پتا ہی نہیں کہ ناول ،افسانے یا اور بھی کسی صنف کی طرح تنقیدبھی ایک تکنیک اور اپنا معیار رکھتی ہے۔ یہی کچھ افسانے اور ناول کے ساتھ ہوا۔ میں نے گذشتہ کئی دہائیوں میں لکھے اور بہترین ناولوں میں گرائمر سے لے کر فنی کوتاہیوں کی بھرمار دیکھی۔ ایسے میں معاشرتی منافقت اچھے اور قابل لکھنے والوں کو کھوتی جا رہی ہے۔ ناول نگار کوپلاٹ سمیت کردار نگاری، مکالمہ اور اپنے خیال کی بنت کو پلاٹ کے حساب سے انجام اور اختتامیہ کے متن تک لے کر کیسے جانا ہے ،اور اس کا خیال تکنیکی معیار کے ساتھ مکمل کیسے ہو گا۔ اِس کا علم کھوتا جا رہا ہے۔ افسانہ ایک مشکل صنف ہے۔مگر کم لکھنے کوکسی نے بھی افسانہ سمجھ لیا۔ زیادہ لکھنے کو ناول مان لیا گیا۔ کچھ بھی اپنی پسند نا پسند کو لکھ دینے کو تنقیدگردانا جا رہا ہے۔یوں اسلوب اور فن کے نام پر صرف اصناف کے نام باقی رہ گئے۔ یہی وجہ ہے ادب کے ساتھ بھی زیادتی ہوتی جا رہی ہے۔
سوال :اردو ناول اور افسانہ نگاروں میں کِن کے افسانوں اور ناولوں نے آپ کوزیادہ متاثر کیا ؟اور آپ کا پسندیدہ افسانہ و ناول نگار کون ہے ؟
جواب: کسی بھی ناول نگار اور افسانہ نگار کی ہر تحریر نے تو نہیں ،مگر عبداللہ حسین اور میرے استاد بابا جی اشفاق احمد صاحب کی تحاریر میں سے کچھ ایسے انتخاب ہیں جو مجھے متاثر کرتی ہیں۔ افسانہ نگاروں میں سے غلام عباس کے کچھ افسانے بہت جاندار محسوس ہوئے۔ منشا یاد صاحب بہت زیادہ روانی سے بڑی سے بڑی حقیقت کو کہہ جاتے۔ اور ان کی اپنی تحریر پر ایسی گرفت ہوتی ہے کہ ایک لفظ اپنی مناسب جگہ پر اپنے صحیح مقام پر دکھائی دیتا ہے۔
سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے افسانے اور ناول کی تعریف کیا ہے ؟
جواب :کسی حد تک جیسا کہ میں نے گذشتہ سوالات کے جوابات میں کہا کہ افسانہ ہو یا ناول۔ لکھنے والے کے پاس ماسٹرز ڈگری کے علاوہ بہترین اساتذہ کی تربیت ہو اور فن کی ریاضت برسوں پر محیط ہو اور وہ جب لکھنے لگے تو اسے علم ہو کہ وہ کہاں کس جگہ کوئی غلطی کر گیا۔وہ خود اپنانقاد سب سے پہلے ہو۔ ادب کی ہرصنف کا فن اور تکنیک کا علم ہی نہیں ریاضت بھی ہو۔ گرائمر سے لے کر ہر صنف کے فنی پہلو عیاں ہوں۔ وہ خود کو اس صنف کے فنی پہلووں کے بیچ رکھ کر اپنی تخلیق کو معیار دے سکنے کے لائق ہو۔جیسے کہ ریسلر ریڈ زون میں نہیں جاتا۔اِسی طرح لکھنے والا تخلیق کار تبھی بن سکتا ہے جب اس کے پاس فنی فارمولاز اور خیال کی پختگی کے ساتھ بشری علم اور زندگی کی ریاضت بھی ہو۔ اِس کے بعد لکھنے والے کے پاس اپنے خیال کے لیے زندگی کا علم ہو۔ اس کے پاس اپنی بات کے ہر کیوں کا جواب ہو۔ وہ معاشرے کے رویوں سے بے خبر نا ہو۔ اس کے پاس رویوں کی وجوہات کے ساتھ ساتھ جوابات بھی ہوں اور وہ بشری نفسیات اور فلسفے بے بہرہ نا ہو۔ یہاں تک آتے آتے اپنے حاصل کردہ فن میںوہ خیال پیش کرے گاکہ کہیں کسی جگہ بھی اس کی تخلیق اٹھائی جائے تو کوئی اسے اٹھا کر رکھ نا دے اور وہ اپنے اندر اٹھتے سوالات کے جوابات پا جائے۔
سوال: ادب سے لگائو رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ناول لکھنے کی بجائے اب افسانہ نگاری کی طرف رحجان زیادہ ہے۔ کیا اِس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اچھا ناول لکھنا نہایت مشکل ،صبر آزما اور محنت طلب کا ہے ؟اِس کے برعکس افسانہ ایک ہی نشست میں لکھا جا سکتا ہے۔ اِس لیے اچھے افسانوں کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ آپ کی اِس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟
جواب : یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ناول کا مطلب ہر گز نہیں کہ بہت زیادہ لکھنا بس ناول ہے اور بہت کم لکھ دینا افسانہ ہے۔ ایک پہلو یہ ضرور ہے کہ اکیسویں صدی تک آتے آتے انسان بہت جلد باز ٹھہرا اسے ہر کام کی جلدی ہے۔تعلقات اور رویوں میں سب کچھ جلدی جلدی ہو جاتا ہے۔ جلد اچھا سمجھ لینا۔جلد ہی برا مان کر راستہ الگ کر لینا۔دو لوگوں کے مابین گفتگو کی جگہ فتوے نے لے لی۔ گفتگو اور معاملات کو لے کر چلنا لکھنے میں ناول ہے۔ رویوں میں جب سے سمجھنے اور وضاحت دینا ختم ہوا ،لکھنے میں ناول کم ہو گیا۔ افسانہ اپنی جگہ پر ایک مشکل ترین صنف ہے۔ اِس کا اپنا فارمولہ ہے۔ جس کے سانچے میں ڈھل کر زندہ افسانہ لکھنا جان جوکھم کاکام ہے۔ ایسا ہرگز نہین کہ فسانے میں کردار نگاری یا پلاٹ نہیں ہوتا۔یا مکالمے نہیں ہوتے۔ ان سب پہلووں کو وہی لوگ نظرا نداز کرتے اور کرنا چاہتے ہیں جو افسانے کے مشکل فن کو نبھانا جانتے نہیں۔ یوںمائیکرو افسانے نے افسانے کو صدمہ پہنچایا۔ وہی بات جو میں ے پہلے کہی کہ جو فن سے نابلد ہوتا ہے۔ وہ اپنی کسی کمی اور کوتاہی کو چھپانے کے لیے کسی نام میں کچھ بھی دکھا۔ سنا دیتا ہے۔ سو اچھے اور معیاری افسانے کے لیے افسانے تعریف پر پہلے فنی اعتبار سے لکھنے والا پورا اترے اور پھر اپنے خیال کی پختگی کا مظاہری کرے۔اگر ایسا ہونا کم نا ہوتا تو ناول بھی زوال پذیر نا ہوتا۔
سوال: آپ کے ناولوں اور افسانوں کے اب تک کتنے مجموے شائع ہو چکے ہیں۔ کیا کسی نئے مجموعے پر بھی کام ہو رہا ہے ؟نیز اپنی تخلیقی کاوشوں کی تفصیلات سے ہمارے قارئین کو آگاہ فرمائیں ؟
جواب: میرے پانچ مجموعے شائع ہو چکے۔ مجھے کبھی بھی تعداد کی فکر نہیں رہی۔ میرا دھیان ہمیشہ کوالٹی پر رہا۔ اِسی لیے میرا گذشتہ مجموعہ منکر وہ ناصرف ساڑے پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے ،بلکہ ایک ایگزیکٹو سائز میں ہے۔ جب منکر کی اشاعت کا معاملہ سامنے تھا تو مجھے اکثر احباب نے مشورہ دیا کہ یہ اچھی بھلی دو کتب ہیں۔ مگر منکر میں شامل افسانے اور کہانیوں کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ مجھے انھیں ادھر ادھر نہیں کرنا تھا۔ اِس ے پہلے ناول ”جسے غم سمجھ رہے ہو” وہ مناسب صفحات پر مشتمل تھا۔ مگر اس سے پیچھے چلے جائیں تو ”اعتبارِعشق” ”تنقیدی نظریات” ”میرے مضامین”اور کچھ مختلف افسانے اور کہانیاں یہی آہنگ رکھتی ہیں۔ مجھے مواد کے لحاظ سے کتاب ترتیب دینا پسند ہے۔ رواج بھی یہی ہے کہ جس نے بہت سا لکھا ہو لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔ اِسی لیے سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کتنی کتب ہیں۔کیسی کتب ہیںاِس تحقیق میں جانا ضروری نہیں جانا جاتا۔ ناول لکھنے کے لیے بھی وہ جو فن سے نابلد ہیں وہ من کی جگہ صفحات کی گنتی کو مدِنظر رکھتے ہیں۔یہ ہم جیسے ریاضت کر چکے لوگوں کے لیے دکھ کی بات ہے غالب کا ایک دیوان مدت گزر جانے پر بھی لاکھوں کتب اور شعرا کی شاعری پر بھاری ہے۔ علاوہ ازیں میں ایک ڈرامہ لکھ رہی ہوں جو اپنے اختتام کے قریب ہے اِس ڈرامے کے مرکزی خیال پر گذشتہ پندرہ برس میں کئی لکھنے والوں نے لکھا۔ رب کا کرم کہ یہ کام میں نبھا پائی اور جوپروڈیوسر یہ پراجیکٹ لے کر میرے پاس آئے تھے۔ انھیں پندرہ برس بعد وہ مل گیا جو وہ چاہتے تھے۔ اِس لیے انہی کے کہنے پر اِس کہانی کے ساتھ ہی ناول ”بہروپیے” کی شکل میں بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اِس کے ساتھ اِس پراجیکٹ کے علاوہ میرا نیا ناول ”انگار” مکمل ہو چکا ہے۔جو ہمارے معاشرے کے ایک بہت ہی اہم المیے پر لکھا ہے۔ وہ جو شادی کو اپنی وقتی تسکین کے لیے استعمال کرتے ہیں اور گھر بسانا ضروری نہیں مانتے۔ اِس ناول ”انگار” کا یہی مرکزی خیال ہے۔اس کے ساتھ میرے ایک ناول ”مکروہ لوگ” جو خواجہ سرائوں پر لکھا گیا ہے۔اس پر ویب سیریز کے لیے کام شروع ہونے والا ہے۔ ”بہروپیے” ڈرامہ ختم ہوتے ہی ”مکروہ لوگ” جو بہت بار شائع بھی ہوا اِس پر ویب سیریز لکھنے کے ساتھ میری ایک کہانی ”تمنا” کا آخری قدم پر فلم لکھنے اور ڈائریکٹ کرنے کا پراجیکٹ ہے۔ ویب سیریز اور فلم کے علاوہ ڈرامہ بہروپیے کی انچارج شپ بھی اگلا قدم ہے۔ میری تخلیقی کاوشیں کیسی رہیں؟ بات یوں ہے کہ مجھے قدرت نے لکھنے کے لیے چناتھا۔ اِس لیے مجھے وہ لوگ بھی ملتے گئے جو اِس میںمعاون ہوتے۔ قدرت نے مجھے بابا جی اشفاق احمد ،منیر نیازی ،شہر ت بخاری ،مرزا ادیب ،خواجہ محمد زکریا ،سر طارق زیدی۔ سر سہیل احمد جیسے بڑے اساتذہ دے دیے۔ یوں لکھنے کی تربیت اور ڈگری ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ یہ سفر آگے بڑھنے لگا کالج اور یونیورسٹی میں لکھنے کا عمل جاری رہا۔ جس میں ڈرامہ لکھنا اور ڈائریکٹ کرنا۔افسانہ ،کہانی ،غزل ،نظم، مضامین ،شائع ہونے لگے۔ مگر ہنوز تشنگی باقی تھی۔ میرا مقالہ عمر فیضی اور رباعی میری پہلی باضابطہ کتاب کہہ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے بعد میری تین کتب اوپر تلے ہی پبلش ہوئیں۔ جو مقالہ لکھنے کے ساتھ ساتھ مکمل ہوئیں۔ بہت سی شاعری مختلف جگہوں پر پبلش ہوئی۔ مگر۔جی ہاں یہاں ایک مگر ہے۔ مگر شادی کے بعد مجھے دیارِ غیر جانا پڑا۔اور دس برس کا ایک طویل عرصہ میں نے پڑھایا مگر لکھا تو صرف ذاتی حد تک۔ لیکن یہ بے معنی نہیں تھا۔ یہ دس برس میری ریاضت کے تھے۔ وطن واپسی پر کوئی دو برس پنجاب کالج میں پڑھا کر ایک معروف اخبار کی بھرپور درخواست پر انہیں جوائن کر لیا۔ اخبار میں ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایڈیٹر کی فرمائش پر کالم اور بعد ازاں فیچر لکھنے شروع کیے اور یوں لکھنے کا رکا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع ہو ا۔مگر اب کہ فن کے ساتھ ساتھ زندگی اور انسان کا علم بھی تھا جس نے وہ پرانی تشنگی دور کر دی تھی پھر تخلیق ہوئی جسے غم سمجھ رہے اور اس کے دو برس بعد منکر۔ منکر کے بعد جو موجودہ کام ہے وہ آپ کو بتا دیا۔اِس کے ساتھ ساتھ ایم فل کے طلبہ طالبات کو تھیسسز کروانا اور ذہنی الجھنوں کے لیے سیشنز لینا بھی جاری ہے۔ انسانی رویوں کے ترویج کے لیے بھی سیشنز لیے جاتے ہیں۔انھی کو اکثر لکھ کودیا کرتی ہوں۔ میری کہانیوں کے مقالمے میرے شاگرد اکثر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں اور باقی جو پانچ نئے پراجیکٹ پر کام کر رہی ہوں ان کے بارے میں بتا چکی ہوں۔
سوال:یوں تو افسانہ نگار کو اپنے سبھی ناول اور افسانے ہی اچھے لگتے ہیں۔پھر بھی آپ سے جاننا چاہیں گے کہ آپ کو اپنا کون سا ناول یا افسانوں کا مجموعہ زیادہ پسند ہے ؟
جواب :مجھے دوسرے لکھنے والوں کا علم نہیں وہ کس بنیاد پر اِس امر کی تخصیص کرتے ہوں گے ،البتہ میرے ساتھ یہ سلسلہ ہے کہ کچھ نیا لکھوں تو پہلے والے کو دوبارہ لکھنے کا دل کرتا ہے۔پھربھی ابھی تک منکر کے بعد جو اپنے تئیں لکھا وہ میرا ناول ”انگار” ہے۔ جوجلد ہی پبلش ہو گا البتہ منکر میرے لحاظ سے ایک شاہکار کتاب ہے۔ یوں تو میں کبھی من بیتی نہیں لکھی۔ مگر منکر کی ہر تحریر کسی کی زندگی میں گزرا کوئی انکار ہے کوئی چیخ جسے دبا دیا گیا۔ کوئی جھوٹ ہے جسے سچ مان لیا گیا۔ منکر کے افسانے پتلی تماشااور سراغِ زیست تو آدمی کے اندرچھپے انسان کہانی ہے۔ اور ہاں ! میرے خاندان کی ایک بہت اہم کہانی ہے۔ جسے میری بڑی بہن مجھ سے لکھوانا چاہتی ہیں۔جو میں شروع کر چکی ہوں۔ آ پ چاہیں تو اسے بھی میری آنے والی کتب میںشمار کر سکتے ہیں۔
سوال: ہمارے ملک میں اب ادب کا مقام پہلے جیسا نہیں رہا ،لوگ اب ادب زیادہ نہیں پڑھتے ،کتابیں کم بکتی ہیں۔ آپ کی نظر میں ادب کے اِس زوال کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟
جواب :سوال کا پہلا حصہ کہ ہمارے ملک میں اب ادب پہلے جیسا نہیں رہا۔تو میری دانست میں یا میرے علم کے لحاظ سے یہ بات کافی حد تک میرے گذشتہ جوابات سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایک پر مزاح بات اکثر گردش کیا کرتی تھی کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی تھا یا انڈا۔ سو ادب کے زوال میں بھی یہی مثال کارفرما ہے۔ لیکن یہاں پہل مرغی نے کی۔ مرغی نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت غیر معیاری انڈے منتخب کرنے شروع کیے اور بس پھر یہ سلسلہ آگے سے آگے چل نکلا۔ اب کہا یہ جاتا ہے کہ عوام یہی دیکھنا ،پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔اِس لیے ہم یہی کچھ لکھوانا ،او دکھانا چاہتے ہیں۔ مگر پہلے تو کبھی بیان کردہ یہی دکھایا اور لکھوایا گیا ہو گا اور پھر اِس یہی کو فرمائش میں ڈھال دیا گیا۔ ایسے میں دو طرفہ آسانی ہو گی وہ لوگ جنھوںنے علم کے حصول کو بے کار سمجھا۔ ادب کے فن کو وقت کی بر بادی مانا ،اور زندگی اور انسان کے علم کو فضول سمجھا۔ وہ ہی سامنے آنے لگے اور فرمائشی پروگرام درد میں فحاشی کولے آیا۔ ایسے میں وہ لوگ جن کے پاس نا ڈگری ہے نا ریاضت وہ ہر جگہ کچھ بھی کہہ کر ادیب بنتے چلے گئے اور یہ سب گذشتہ دو دہائیوں سے عروج پر ہے۔ یوں قابل کی قابلیت کو سمجھنے کی سمجھ رخصت ہوتی چلی اور قابلیت وضاحتوں تلے دبنے لگی۔ اقبال نے آنے والے وقت کی آہٹ کو سن کر ہی کہا تھا کہ اکثریت اتھارٹی کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ مگر ہم نے شخصیت پرستی کو رواج دے دیا ہے۔ مگر اب جس نے تخلیق کار کو تلاش کرنا ہے۔ سراہنا ہے۔ وہ ایسا تب ہی کرے گا۔ جب اس یہ پتا چلے گا کہ لکھنے والا باکمال ہے یا نہیں۔ ایسے میں منظر پر آنے والی تخلیق کو کیا کہیںگے۔ ؟اور وہ لوگ جو اب بھی صرف ادب کے لیے خود کو وقف کیے بیٹھے ہیں۔ جنھوں نے ریاضتوں میں دہائیاں گزار دیں۔ ان کو کوئی ایسا جسے گرائمر کا علم بھی نا ہو۔ وہ کہہ دیتا ہے کہ آپ کرتے کیا ہیں ؟کوئی تو پہل کرے کوئی تلاش کرے ان ہیروں کی جو واقعی تخلیق کار ہیں۔ یوں کتابیں کوئی کیوں خریدے گا۔ جب دو طرفہ کم فہمی کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ جب سے پیسے دے کر کتاب پبلش ہونے لگی۔ صحیح معنوں میں تخلیق کار دولت مند لکھنے والوں میں دب گئے۔ جن اداروں نے تیس چالیس برس پہلے معاشرے کوادیب دیے۔ وہ اس وقت اپنے پاس ایسے لوگوں کو رکھتے تھے۔ جو میرے بیان کردہ علمی معیار کے حامل ہوا کرتے تھے اور وہ شائع ہونے کے لیے آئے مواد کو پرکھتے کہ آیا یہ پبلش ہونے اور کتاب کہلانے کے قابل ہے یا نہیں۔ تب ہی ادارہ اس کی ترویج کرتا تا کہ لوگوں تک معیاری ادب پہنچے۔ مگر افسوس کے ساتھ اب جس کے پاس پیسے ہیں وہ کچھ بھی لے جائے کچھ روز بعد صاحب ِ کتاب ہو جائے۔
سوال: آپ ایک سینئر افسانہ و ناول نگار ،ادیبہ اور مصنفہ ہونے کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں نئے آنے والوں کو کیا مشورہ دیں گی ؟
جواب : ویسے تو میرے گذشتہ جوابات میں اِس سوال کا جواب عیاں ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہی کہ ہر انسان کو قدرت نے کسی نا کسی خصوصیت کے ساتھ پیدا کیا ہوتا ہے۔ کسی ایک کا کمال دوسرے کا زوال نہیں ہوتا۔ یوں دنیا میں ہر ایک دوسرے کا وسیلہ بنتا ہے۔ خرابی تب ہوتی ہے جب انسان وہ کام کرتا ہے یا کرنا چاہتا جس کی خصوصیت اس کے پاس نہیں ہے۔ دوسری بات جب آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کس کا م کے لیے بنے ہیں تو پھر اس کو فنی او رتکنیکی لحاظ سے نا صرف سیکھیں بلکہ ریاضت بھی کریں تب کہیں جا کے پیش کش کا وقت آتا ہے۔ اب یہ ایک معاشرتی زوال ہے کہ ایسا ادیب جو صرف ادیب رہنا چاہے اور زندگی اِسی کے لیے مختص کر رکھنا چاہے اسے ہمارا معاشرہ آٹے دال کے بھاو میں ڈالے رکھتا ہے۔ بات سمجھ آ چکی ہو گی۔ اگر کوئی ادیب ہے تواسے فنی و تعلیمی اعتبار سے اردو ادب کو مضمون کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے۔ ڈگری بھی لینی چاہیے۔ اور ریاضت یعنی specialization بھی کسی استاد سے لینی چاہیے۔ نیز ادب کی ڈگری ریگیولر پڑھ کر ہی ڈگری بنتی ہے۔ ادب ایسے نہیں پڑھا جاتا۔ فن لینے کے بعدادیب جب نفسیات ،فلسفے اور زندگی کا علم حاصل کرتا ہے تبھی وہ قلم اٹھا سکتا ہے اور سب سے اہم بات ایک تخلیق کار من بیتی نہیں جگ بیتی لکھتا ہے۔ اور ان کے حل بھی بیان کرتاہے۔ وہ معاشرے کا طبیب ہوتا ہے۔ اسے وہ نہیں لکھنا جو اسے صحیح لگتا ہے۔ اسے وہ لکھنا جو دراصل صحیح ہے۔ یہیں اس کو بشری اور زندگی کا علم مدد کرے گا۔
سوال:کیا آپ نثر کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتی ہیں ؟اس کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ فرمائیں۔ نیز آپ کے پسندیدہ شعرا کون کون سے ہیں ؟
جواب : میں نے شاعری کا آغاز کالج میں جانے کے بعد کیا۔ سر منیر نیازی صاحب کو جب میں نے اپنی پہلی نظم دکھائی تو انھوں نے کہا کہ اِس میں کوئی غلطی نہیں۔ ان کے یہ الفاظ میرے لیے آج بھی ایک میڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یونیورسٹی جانے تک شاعری اپنے جوبن پر تھی۔ نثر کچھ کم ہو گئی تھی۔ میں نے بہت سی نظمیں لکھیں۔ غزل میرا شعبہ نہیں تھی۔ ایم فِل کے بعد میری نثر پھر شروع ہو چکی تھی اور شاعری بھی جوبن پر تھی۔ جب میں بیرون ملک گئی تو میری غیر موجودگی میں میری تمام کاوشیں کسی اپنے نے ہی بھولپن میں کہیں گنوا دیںاور جب میں واپس آئی تو میرے پاس بارہ برس کی عمر سے لے کر یونیورسٹی تک کی ہر تخلیق کہیں نہیں تھی۔اِس کے بعد شاعری اگر لکھی بھی تو بس ذاتی حد تک۔ پسندید ہ شاعر تو بہر حال سب سے پہلے غالب صاحب۔ وہ ایک شاعر نہیں بلکہ سکالر تھے۔ وہ ایک صدی آگے کی سوچ رکھنے والے انسان تھے او ر تبھی ان کے ہمنواان کو سمجھ نا سکے۔ ایسا ہر اسکالر کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ایک وقت آگے کا انسان ہوتا ہے۔ جس کے ذہن تک ان کی رسائی نہیں ہوتی اور انسان کو جو سمجھ نہیں آتا اسے وہ غلط مان لیتا ہے۔ خیر! غالب کے بعد اگر نام لوں تو میر تقی میر۔ متقدمین میں سے او ر پھر متوسطین سے تو آگے نکل جائیں متاخرین میں فیض احمد فیض ،ناصر کاظمی ،(سہلِ ممتنع کے بادشاہ) ابنِ انشااور منیر نیازی صاحب۔ صوفی تبسم ،قتیل شفائی۔
سوال : ادبی سرگرمیوں کے علاوہ آپ کے دیگر مشاغل کیا کیا ہیں ؟
جواب : حقیقت تو یہی ہے کہ لکھنا ،پڑھنا ہی میرا شوق ہے۔ یہی میرا کام ہے۔ اِسی کی مختلف شاہراہیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہاں! موسیقی اورگانا۔ نعت خوانی کرنا یہ میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ میں مصوری بھی کرتی ہوں اور کہنے والوں کے لحاظ سے کہ بہت اچھی کرتی ہوں singaing اور مصوری میرا شوق ہے۔ میں ان کو بہت اچھے سے نبھاتی ہوں مگر میںنے انھیں اپنا شوق ہی رہنے دیا۔اِس کے علاوہ مجھے کوکنگ کرنا بہت اچھا لگتا ہے مجھے کپڑوں کی ڈیزائنگ کرنا پسند ہے۔ کتاب پڑھنا تو بہرحال ہے ہی۔ لکھنے کے ساتھ ساتھ یہی سب شوق چلتے ہیں۔ گھر کا خیال رکھنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھنا مجھے پسند ہے۔ میرا اپنوں کے لیے باعمل ہونا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ مین اپنے رب کو اپنے عمل میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میرے ہر کام میں میرا لکھنا اور زندگی اور بشری شعور معاونت کرتے ہیں۔ میں روحانیت کی تعلیم بھی لے چکی ہوں جیسا کہ میں نے بتایا تھا۔ یہ سب مل کر مجھے بہت مصروف رکھتے ہیں۔ میر اعلم مجھے لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عمل میں چاہیے ہوتا ہے۔ میں جب چلتے پھرتے لوگوں کو پڑھتی ہوں تو لکھتے ہوئے یہ سب میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ایک تخلیق کار یوں ہی جاننے لگتا ہے کون کہاں کس مقام پر ہے اور اسے کتنا کہنا ہے اور کتنا خاموش رہنا ہے۔ وہ ردعمل کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے۔ تو یہی سب مجھے مصروف رکھتا ہے۔ موجودہ پراجیکٹ اور آنے والے پراجیکٹ جن کا ذکر کیا ان پر کام اور دن میں ایک سے دو ذہنی کاونسلنگ کے سیشنز بھی لیتی ہوں۔
سوال : آپ کے پسندیدہ لباس ،کھانے ،موسم اور رنگ کون کون سے ہیں ؟
جواب : مجھے ڈھیلے ڈھالے ٹراوزر اورکھلے کھلے کرتے پسند ہیں۔ میں اپنے لباس کو سوتی ،کھلا کھلا اور ایک رنگ میں پسند کرتی ہوں جس پر کچھ بھی اور شامل نا ہو۔ کڑھائی۔ وغیرہ کچھ نا ہو۔ ساتھ ایک بڑی سی شال ہو۔ چاروں موسموں میں میر اپہناوا ایک جیسا رہتا ہے۔ میں سبزی کا سالن اورسادی روٹی زیادہ پسند کرتی ہوں۔ یہی ناشتہ اور یہی رات کا کھانا۔دوپہر کا کھانا میں نہیں کھاتی۔ لسی بھی گرمی میں کبھی کبھار۔ اِس کے علاوہ مجھے نٹس پسند ہیں۔ روز صبح سویرے نماز کے بعد کافی لینا پسند ہے۔ چاکلیٹ آئسکریم بھی پسند ہے۔ گوشت کسی بھی شکل میں مجھے اچھا نہیں لگتا۔ موسم تو سبھی لوگوں کی طرح معتدل ہی پسند ہے اور یہ موسم ہمار ے یہاں سال میں دو بار آتا ہے۔ایک سردی سے گرمی کی طرف جاتے ہوئے۔ مجھے دوسرا پسند ہے۔ یعنی گرمی سے سردی کی طرف جانے کے درمیان کا عرصہ بھاتا ہے۔ رنگوں میںسبھی رنگ اچھے ہیں۔ ناپسند تو کوئی بھی نہیں۔ ہاں! سفید ، نارنجی اور سبز زیادہ استعمال کرتی ہوں۔ اگر موقع ملے۔ پھول تو سبھی اچھے ہوتے ہیں۔ مجھے سبھی سبھی پسند ہیں۔ مگر موتیا ،ٹیوب روزاور نرگس کے پھول لکھنے میں مدد کرتے ہیں۔پسند بھی ہیں۔
آپ کاماہنامہ ہیومن رائٹس واچ میگزین کو وقت دینے کا بہت شکریہ۔
ماہنامہ ہیومن رائٹس واچ کا شکریہ کہ و ہ ان لوگوں کو تلاش کرتا ہے جو ادب میں ریاضت کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ سلامتی۔