انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے والا ایک غیر جانبدار میگزین

معروف سوشیالوجسٹ،محقق،ریفارمرپروفیسرجلیل بٹ ایڈوکیٹ

غلام مصطفی چوہدری

پروفیسر جلیل بٹ ایڈووکیٹ ایک معروف سوشیالوجسٹ، ریفارمر، محقق اور انسانی حقوق کے انتہائی متحرک رہنما ہیں۔ انھوں نے جینڈر سٹڈیز اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ میں پی ایچ ڈی ، سوشیالوجی میں ایم فل اور ایل ایل ایم ان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کیا ہوا ہے۔ وہ انسانی حقوق کے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور پنجاب یونیورسٹی سمیت کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر فرائض سرانجام دے چکے ہیں جبکہ آج کل و ہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سوشیالوجی میں ہیومن رائٹس کا مضمون پڑھا رہے ہیں۔ ماہنامہ ہیومن رائٹس واچ میگزین نے ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ان سے ہونیوالی معلوماتی گفتگو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

پروفیسرجلیل نٹ ایڈوکیٹ

سوال: آپ اپنی ذاتی زندگی اور فیملی کے بارے میں بتائیں اپ کہاں پیدا ہوئے اور کن کن تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ؟

السلام علیکم :سب سے پہلے میں جناب چوہدری غلام مصطفی صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے  ماھنامہ ہیومن رائٹس واچ میگزین کے لیے مجھے انٹرویو کی دعوت دی ہے۔ میں ساہیوال کے ایک چھوٹے سے قصبے عارف والا میں پیدا ہوا ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں میں نے اپنی ابتدائی زندگی عارف والا سی بلاک کے محلہ میں گزاری۔

 میری دو بڑی بہنیں گھر کے قریب ایک سکول میں زیر تعلیم تھیں جن کے ساتھ میں نے سکول جانا شروع کیا  میرا پہلا جو تعلیمی ادارہ تھا وہ ایک سماجی فلاحی خواتین کی تنظیم کا ادارہ تھا ۔اس طرح میں نے اپنی ابتدای تعلیم ایک این جی او کے سکول سے حاصل کی پھر میں نے گورنمنٹ مڈل سکول نمبر 2عارف والا سے مڈل پاس کیا جبکہ میٹرک میں نے سیالکوٹ کے کمپری ہینسیو سکول سے کیا اس کے بعد مرے کالج سیالکوٹ سے ایف ایس سی کیا اور گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ساہیوال سے گریجویشن مکمل کی ۔

 گریجویشن کے بعد میںنے پنجاب یونیورسٹی لاہورمیں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ایم اے میں داخلہ لیا اور ایم اے سوشیالوجی پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔اس کے بعد میں نے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔

سوال:آپ کو انسانی حقوق اور سماجی شعبے میں کام کرنے کی تحریک کیسے ملی،کیا کوئی ذاتی تجربہ یا واقعہ تھا جو آپ کے اس راستے پر چلنے کا سبب بنا؟

انسانی حقوق اور سماجی شعبہ میں کام کرنے کی تحریک ملتی ہی اسے ہے جس کا بچپن سے ہی رجحان اس طرف ہو تو الحمدللہ بچپن کے زمانے سے ہی مجھے اس طرف خاص لگائو تھاکسی کے ساتھ زیادتی ہوتی تو میں بہت زیادہ محسوس کرتا دوسروں کے حقوق کو محسوس کرنے کا جذبہ میرے خالق نے میری تخلیق کرتے وقت میرے ساتھ ہی ڈالا اور سماجی شعبے میں کام کرنے کے تحریک ایسے ملی کہ میری ابتدائی تعلیم ہی ایک سماجی فلاحی ادارے سے ہوئی جس سے میرے اندر جو خدمت خلق کا جزبہ موجود تھا اس کو تقویت ملی۔

میری اور دوسرے بہن بھائیوں کی تربیت میں ہماری والدہ کا بہت کردار ہے انہوں نے ہمیں انسانیت کی خدمت کا درس دیا اور باوقار طریقے سے رہنا سکھایا میں کسی خاص حادثاتی طور پر سماجی خدمت کے شعبے میں نہیں آیاخدمت خلق کا جذبہ بچپن سے ہی موجود تھا اور یہ والدین کی تربیت اور اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ہے۔

سوال: آپ نے سماجی شعبہ میں آنے کے بعد کن کن اداروں کے ساتھ کام کیا اور خاص طور پر اپ اپنی سماجی اور انسانی حقوق کے لیے جو خدمات ہیں اس کے بارے میں بھی ہمارے قارئین کو آگاہ کیجئے؟

میری سماجی شعبے میں کام کرنے کی ابتدا 1982  سے شروع ہو گئی تھی وہ اس طرح تھا کہ میں نے بی اے کے پیپر دینے کے بعد سب سے پہلے  ینگ والنٹیرز پاکستان  کے نام سے ایک سماجی تنظیم بنائی پھر دانش کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کی اس کے بعد میں نے سوشل ڈیویلپمنٹ فائونڈیشن تنظیم بنائی اور ان تنظیموں میں کئی لوگوں کو ساتھ شامل کیا اور سماجی سرگرمیاں کیں جب میں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے سوشیالوجی مکمل کیا تو 1985 میں مجھے سب سے پہلے پنجاب گورنمنٹ کے ادارے ہوم ڈیپارٹمنٹ میں جاب کا موقع ملا تو میں نے وہ لوگ جو کرائم کی دنیا میں کسی وجہ سے پہلی بار ا جاتے ہیں ان کی سماج میں بحالی (Rehabilitation)کے حوالے سے کام کیا یہ سرکاری سطح پر میرا  پہلا سماجی کام تھا   تو اسی کے ساتھ ساتھ میں نے انسانی حقوق کے لیے بھی کام شروع کر دیا۔

1987میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں تعینات ہوا اور بورے والا میں میڈیکل سوشل ویلفیئر پروجیکٹ میں کام کرنا شروع کیا 1987 سے لے کر 2001 تک سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے کئی پراجیکٹس میں کام کیا اس دوران کئی اور اداروں کے ساتھ بھی سماجی کام کرنے کے مواقع بھی ملے اور بہت سے تربیتی پروگراموں میں بھی حصہ لیا پھر 2001 سے 2004 تک بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سپارک کا صوبہ پنجاب کا کوارڈینیٹر رہا اور اسی دوران غلام مصطفی چوہدری صاحب جو کہ اس وقت پاکستان کونسل فار ہیومن رائٹس کے روح رواں اور سیکرٹری جنرل تھے ان کے ساتھ بھی انسانی حقوق کے نیٹ ورک میں رابطہ رھا ان کے ساتھ میری ملاقاتیں میری زندگی کا ایک اثاثہ ہیں اس کے بعد پنجاب حکومت کے ایک ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں یونیسیف کی طرف سے بطور کنسلٹنٹ کام کیا میں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کیا ہوا تھا پھر میں نے گورنمنٹ کی ملازمتیں چھوڑ کر بطور وکیل پریکٹس شروع کر دی اور 2005 میں بطور ہیومن رائٹس وکیل عارف والا میں اپنا چیمبر قائم کیا اور بطور انسانی حقوق کے وکیل اور مفاد عامہ کے کیسوں پر کام کرنا شروع کر دیا اس دوران ہی این جی اوز میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے تربیتی پروگرام بھی کیے۔ پھر میری بطور وزٹنگ پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ایل ایل بی پانچ سالہ کورس  پڑھانے کے لیے تعیناتی ہو گئی اور مجھے وہاں ایل ایل بی کے سٹوڈنٹس کو بطور پروفیسر پڑھانے کا موقع ملا اس کے بعد حکومت پنجاب کے ایک ادارے پنجاب کمیشن ان دا سٹیٹس اف وومن(PCSW) میں مجھے بطور ممبر چار سال کے لیے تعینات کیا گیا جہاں میں نے 2015 سے لے کر 2018 تک بطور کمیشن ممبر کام کیا اور خواتین کے حقوق کے لیے بننے والی لیگل کمیٹی کا چیئر پرسن بھی رہا اس کے بعد میں نے دوبارہ شعبہ تعلیم و تدریس کو جوائن کیا اور اپنے سماجی سرگرمیوں کے علاوہ اج کل تعلیم و تدریس سے بھی وابستہ ہوں۔

سوال:آپ کے خیال میں ہمارے ملک اوراس خطے میں انسانی حقوق کی موجودہ صورت حال کیا ہے؟ اور انسانی حقوق کے لے کام کرنے والے کارکن کن کن بنیادی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں؟

ہمارے ملک اور اس خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے خصوصی طور پر جنوبی ایشیا کے ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال دنیا کے سامنے ہے۔ انسانی حقوق کی صورتحال اطمینان بخش نہ ہونے کی بڑی وجہ وجہ سول سوسائٹی اور حکومت کرنے والے اداروں کے درمیان خلا ہے۔ اس ماحول میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے اس کی ایک وجہ انسانی حقوق کے کارکنوں میں مہارت اور اگاہی کا نہ ہونا بھی ہے ہمارے ملک اور اس خطہ میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر  نہ ہونے کی وجہ عوام میں انسانی حقوق کے بارے میں شعور اور اگاہی کا نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کمی انے کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول سوسائٹی اور عوام کا باشعور ہونا بہت ضروری ہے علاوہ  ازیں حکمرانوں کی ترجیحات میں بھی انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کو ہوناچاہیے اور اس کے لیے سول سوسائٹی، عوام اور حکمران طبقہ میں رابطوں کا دائرہ کار وسیع اور مضبوط ہونا ضروری ہے اس طرح شہری ،سماج اور حکمرانوں میں بہتر تعلق اور ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔

سوال:انسانی حقوق کی جدوجہد میں اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا رہی ہے جس پر آپ فخر محسوس کرتے ہیں؟

انسانی حقوق کی جدوجہد کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی تو ا رہی ہے تعلیمی اداروں میں انسانی حقوق کا مضمون شامل کیا جانا بھی ایک کامیابی ہے جبکہ سول سوسائٹی میں بھی امپاورمنٹ بڑھ رہی ہے شہریوں میں شعور میں اضافہ ہونا ،انسانی حقوق کی  جدوجہد میں تیزی غیر سرکاری تنظیموں کے متحرک کردار کی وجہ سے معاشرے میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری آ رہی ہے جو کہ اطمینان بخش ہے جبکہ انسانی حقوق تحفظ اور فروغ کے لیے ابھی مسلسل جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

سوال:کیا بطور ایک وکیل اور انسانی حقوق کے علمبردار آپ انسانی حقوق کے متعلق کسی ایسے کیس کا ذکر کر سکتے ہیں جس نے آپ کو جذباتی طور پر زیادہ متاثر کیا ہو؟ اور اس کیس کے نتائج کیا تھے؟

میں انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کام کرنے کے علاوہ بطور وکیل بھی کام کر رہا ہوں انسانی حقوق کے لیے میرے کام کا آغاز 1982 سے ہوا اور بطور وکیل 2005 سے پریکٹس کا اغاز کیا اس دوران انسانی حقوق کے متعلق بہت سے کیسوں پر کام کیا اور کئی لوگوں کو ان کے حقوق دلانے میں کردار ادا کیا میں 2001 سے 2004 تک انسانی حقوق اور بچوں کے لیے کام کرنے والی ایک معروف تنظیم سپارک کا صوبہ پنجاب میں کوارڈینیٹر رہا اور اس دوران بچوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے بہت مواقع ملے اور مجھے مختلف جیلوں کے دورے کرنے کا بھی اتفاق ہوا اور پنجاب کے 22 شہروں میں جیلوں میں جانے کا موقع ملا وہاں قیدی بچوں سے بھی ملاقاتیں ہوئی جنہوں نے جیلوں میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں اگاہ کیا جن میں جنسی زیادتیاں بھی شامل تھیں اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں انکار کرنے کی صورت میں تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے یہ سب  جان کر بہت دکھ ہوا اور یہ  سب واقعات ہم نے اعلی حکام تک پہنچائے جنہوں نے اس کا نوٹس بھی لیا اس کے علاوہ گھریلو تشدد بچوں سے زیادتیوں کے بارے میں بہت سے واقعات  میں اپنی خدمات مہیا کی انسانی حقوق کی کئی خلاف ورزیاں دل ہلا دینے والی ہوتی ہیں اور جذباتی طور پر ایسے واقعات بہت اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔

سوال:آپ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے کردار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا ان کا تعاون آپ کے کام میں مددگار ثابت ہوتا ہے؟

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں دو طرح کی ہیں ایک وہ ہیں جو حقیقی معنی میں سول سوسائٹی  کی  نمائندہ ہیں دوسرے وہ جو حکومت کے زیر انتظام اور زیر اثر کام کرتی ہیں جو حکومتوں کے زیر اثر کام کرنے والے ادارے ہیں ان کی نچلی سطح پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر کم ہوتی ہے جبکہ یہ بین الاقوامی تنظیمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پاپولر کیسوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جن سے میڈیا میں ان کو کوریج حاصل ہو مقامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بین الاقوامی تنظیمیں اتنا نوٹس نہیں لیتی وہ صرف پاپولر کیسوں پر ہی اپنے وسائل اور وقت صرف کرتے ہیں  اور سلیکٹڈ کیسوں کو ہی توجہ کا مرکز بنایا جاتا ہے ان کو مقامی سطح پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ کئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کیسوں میں مقامی غیر سرکاری تنظیمیں بیوروکریسی کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں جہاں ان کو بین القوامی اداروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے بین الاقوامی اداروں کو مقامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے موجودہ صورتحال میں بین الاقوامی تنظیموں کا مقامی سطح پر انسانی حقوق کی ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں مقامی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ اپنا نیٹ ورک فعال بنانا چاہیے جبکہ موجودہ صورتحال میں بین القوامی تنظیموں کا مقامی سطح میں انسانی حقوق کی ورزیوں کی روک تھام میں کردار اطمینان بخش نہیں اس لیے ان کو مقامی تنظیموں سے رابطوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر انسانی حقوق کی پامالیوںکا موثر انداز میں نوٹس لیا جا سکے۔

سوال: آپ کے خیال میں عوام میں انسانی حقوق کی آگاہی بڑھانے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ کیا میڈیا اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے؟

عوام میں انسانی حقوق کی آگاہی کے لیے اب تک جو اقدامات ہوے ہیں  وہ تسلی بخش نہیں عوام کو اب بھی نہیں پتا کہ ان کے حقوق کیا ہیں بلکہ یہاں تک کہ پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بنیادی حقوق کے بارے مکمل آگاہی نہیں میرا یہ خیال ہے کہ اگاہی کے لیے ضروری نہیں کہ ہر چیز تحریری شکل میں ہو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا  ہر شہری  تو  پڑھا لکھا نہیں ان میں اگائی کے لیے میڈیا ، فلم،ڈرامہ اور تھیٹر موثر ذریعہ ہیں یہ وہ کلچرل   ٹولز ہیں جن کو ہم استعمال نہیں کرتے  الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا بڑے اگائی کے سورس ہیں  شعور اور اگائی کے لیے ہمیں جدید ٹولز استعمال کرنے ہوں گے اور گراس روٹ لیول پر اگائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے کلچرل ٹولز کے علاوہ مساجد بھی بہت بڑا اور موثر ذریعہ ہیں جبکہ سول سوسائٹی کی مقامی تنظیموں کو اس سلسلے میں بہت زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال:انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو کیا کیا خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں اور ڈیفینڈرز کے لیے حکومتی سطح پر غیر جمہوری رویہ رکھنے  والے خطرات کا باعث ہوتے ہیں اس کے علاوہ روایتی سوچ رکھنے والے سٹیٹس کو کے حامی لیڈرشپ بھی انسانی حقوق کارکنوں کو اپنے راستے میں رکاوٹیں تصور کرتے ہیں مگر انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل باشعور اور تربیت یافتہ ہونا چاہیے تب ہی وہ ہر طرح کے خطرات سے بے نیاز ہو کر انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

سوال:آپ کے خیال میں مستقبل میں انسانی حقوق کی تحریک میں کون سے نئے چیلنجز سامنے آ سکتے ہیں؟ اور آپ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنانا چاہیں گے؟

جس تیزی سے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اور ائی کیو اے ائی جو سلسلہ ہے وہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے لیے بھی ان کے کام کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے  انسانی حقوق کے کارکنوں کی تربیت اس طرح ہو کہ وہ تمام قوانین  اور سائبر لاز کو سمجھتے ہوں اور انسانی کے  تحفظ کے لیے کام کرنے کے جدید طریقوں سے بھی واقفیت رکھتے ہوں اور ائی ٹی میں بھی ان کو عبور حاصل ہو اس طرح سے انسانی حقوق کارکن انے والے  چیلنجز اور خطرات سے نپٹ سکتے ہیں۔

سوال: آپ نے جیلوں میں بھی قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا ہے،کیا پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں؟

میں  1985 سے لے کر اب تک جیلوں میں قیدیوں کے بارے میں کام کر رہا ہوں  خصوصی طور پر 2001 سے 2004 تک سپارک کے صوبائی کوارڈینیٹر کے طور پر پنجاب کی مختلف 22 جیلوں میں جانے کا اتفاق ہوا ان جیلوں میں قیدیوں کے لیے ایک جیل مینول ہوتی ہے جس کے مطابق ان کو حقوق حاصل ہوتے ہیں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ جیل مینول پر عمل درامد نہیں کیا جاتا دراصل قیدیوں کی دنیا ہی الگ ہے جیل کا سپرنٹینڈنٹ اور عملہ خوف کی ایک علامت ہوتا ہے کسی کو جیل میں جیل مینول کے مطابق اپنا حق مانگنے کی جرات نہیں ہوتی جیل مینول اور عالمی قوانین کے مطابق جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ سلوک نہیں کیا جاتا جیلوں میں قیدی بچوں اور خواتین کے بارے میں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں جیلوں میں کرپشن، منشیات، جنسی ہراسمنٹ وغیرہ پائے جاتے ہیں جیلوں کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے جو ریفارمز ہو رہی ہیں اس کے نتیجے میں جیلوں کے عملے کے رویوں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے جیلوں میں مزید ریفارمز کی ضرورت ہے اس سلسلے میں غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کوارڈینیشن ہونا چاہیے اور ان کو جیلوں کے وزٹ کرنے میں کوئی دشواریاں نہیں انی چاہیے اور نہ ہی ان سے جیلوں کے کوئی بھی معاملات کو چھپانا چاہیے۔

سوال: قیدی بچوں اور عورتوں کے جیلوں میں مسائل کیا کیا ہیں؟

پنجاب میں جیونائل جسٹس سسٹم کے تحت فیصل آباد اور بہاولپور میں خاص طور پر بچوں کی جیلیں ہیں جنہیں بورسٹل جیل بھی کہتے ہیں باقی جیلوں میں ٹرائل کے دوران قیدی بچوں کو علیحدہ بیرکس میں رکھا جاتا ہے اور سزائوں کے بعد ان کو فیصل آباد اور بہاولپور کی بچوں کی جیلوں میں بھجوا دیا جاتا ہے قانون کے مطابق 18 سال سے کم جو بچے ہوں ان کو جیلوں میں علیحدہ بچوں کی بیرکس میں رکھا جاتا ہے خواتین کی علیحدہ جیل ملتان میں ہے جہاں سزا یافتہ قیدی خواتین کو رکھا جاتا ہے جبکہ انڈر ٹرائل قیدی خواتین کو جیلوں میں خواتین کی بیرکس میں الگ رکھا جاتا ہے جیل مینول اور عالمی قوانین کے مطابق انڈر  ٹرائل خواتین کا کسی حد تک خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ عالمی سطح پر بہت پریشر بھی ہوتا ہے کہ  قیدی خواتین کو تمام حقوق دیے جائیں قیدی بچوں کے بارے میں بھی شکایات پائی جاتی ہیں کہ ان کو جیل میں رولز کے مطابق سعولیات میسر نہیں اب تک ہونے والی جیل ریفارمز  کو تسلی بخش  تو نہیں کہا جا سکتا مگر ان ریفارمز سے کچھ بہتر تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور اس کو اور مزید  بہتر بنانے کی ضرورت بھی ہے اب تک ہونے والی جیل ریفارمز میں جیل سٹاف کی ٹریننگ کے انسٹیٹیوٹ ساہیوال لاہور میں بنائے گئے ہیں جن میں جیل سٹاف کی ٹریننگ کی جاتی ہے جس کے نتائج اچھے آرہے ہیں۔

سوال؛قیدیوں کے مسائل کے حل کے لیے کن کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

جیلوں میں بند لوگوں کے بارے میں عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ یہ سب قیدی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے جیل میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن میں انڈر ٹرائل اور سزا یافتہ قیدی ہوتے ہیں جن کے مسائل بھی الگ الگ ہیں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ جیلوں میں کافی تعداد میں ایسے قیدی بھی موجود ہیں جو  اپنی سزا تو پوری کر چکے ہیں مگر جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے جیل کاٹ رہے ہیں اس کے علاوہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو پیرول پر بھی رہا کیا جا سکتا ہے اور پروبیشن سسٹم کے ذریعے ان کو جیل جانے سے بچایا بھی جا سکتا ہے اس بارے میں بڑے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے جیل میں جو قیدی ہیں وہ اگر اپنی قید کا ون تھرڈ حصہ گزار لیں  اور ان کا کردار ٹھیک رہا ہو تو ان کو کچھ شرائط کے ساتھ پیرول سسٹم کے تحت  جیل سے باہر رکھا جا سکتا ہے اور یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ جیلوں میں 60 فیصد کے قریب ایسے لوگ ہیں جن کو ہم پروبیشن سسٹم کے تحت رہا کر سکتے ہیں پاکستان کے جیلوں کے اندر پروبیشن (Probation)  اور پیرول (Parole)  سسٹم پر موثر عمل درامد ہونے سے قیدیوں کے حالات بہت بہتر کیے جا سکتے ہیں مگر اس طرف حکومت کی توجہ نہیں جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل ہیں جبکہ پروبیشن اور پیرول سسٹم کے تحت قیدیوں کو رہا کر کے جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں کمی کی جا سکتی ہے جس سے گنجائش سے زیادہ تعداد ہونے کی وجہ سے قیدیوں کے جو مسائل ہیں  ان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

سوال: کیا آپ پاکستان میں غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے کردار سے مطمئن ہیں یا سماجی تنظیموں کے کام کرنے کے طریقہ کار میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟

پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کا کردار تسلی بخش ہے اگر انسانی حقوق  اور قیدیوں کے حقوق کے لیے کوئی اواز اٹھتی ہے تو وہ غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے ہی ہوتی ہے پاکستان میں اس وقت بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں کام کر رہی ہیں  ان تنظیموں کے علاوہ اس وقت ہیومن رائٹس اور سول سوسائٹی نیٹ ورک (HRCN) موثر طریقے سے کام کر رہا ہے اس کے علاوہ ایچ ار سی پی، سپارک، روزن ،ساحل، عورت فانڈیشن کا بھی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کے ان اداروں اور حکومت کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو خصوصی کردار ادا کرنا چاہیئے اور غیر سرکاری تنظیموں اور حکومتی اداروں کے درمیان میٹنگز اور ڈائیلاگ کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ موثر طریقے سے انسانی حقوق کے تحفظ و فروغ کے لیے کام کیا جا سکے اگر پاکستان میں ہیومن رائٹس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ذکر کیا جائے تو ان میں ماھنامہ ہیومن رائٹس واچ میگزین کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر اس میگزین کے چیف ایڈیٹر غلام مصطفی چوری صاحب کا ہیومن رائٹس کے تحفظ اور فروغ کے لیے جدوجہد میں بڑا کردار ہے اب وہ بطور صحافی بھی ہیومن رائٹس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جس کے لیے ہیومن رائٹس واچ میگزین کا پلیٹ فارم استعمال کیا جا رہا ہے میں انسانی حقوق کے لیے ان کی مسلسل جدوجہد کا بہت بڑا مداح ہوں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس طرح کے اور بھی لوگوں اور اداروں کو سامنے آنا چاہیے تاکہ انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے کام کو اگے بڑھایا جا سکے۔

سوال:آپ انسانی حقوق اور سماجی کاموں کے دوران اپنی ذاتی زندگی اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے درمیان کیسے توازن قائم کرتے ہیں؟

انسانی حقوق اور سماجی کاموں میں مصروف رہنے کی وجہ سے میری نجی اور فیملی زندگی اتنی آئیڈل نہیں کیونکہ جتنا وقت مجھے اپنی فیملی کو دینا چاہیے وہ میں نہیں دے رہا جس کا احساس بھی رہتا ہے انسانی حقوق کی جدوجہد میں میری صحت بھی متاثر ہوئی ہے مگر انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں جو راحت اور خوشی ملتی ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا کوئی پھولوں کی سیج بھی نہیں کیونکہ فیملی لائف کا اس میں متاثر ہونا تو یقینی ہوتا ہے میرا یقین ہے کہ ہماری جدوجہد کا صلہ ہمیں کسی اور صورت میں قدرت کی طرف سے ضرور مل رہا ہوتا ہے اور میں اپنی انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے اب تک کی جانے والی جدوجہد سے بہت مطمئن ہوں۔

سوال:وہ کیا چیز ہے جو آپ کو اس مشکل جدوجہد میں آگے بڑھنے کی حوصلہ دیتی ہے؟

میں مسلسل 40 سال سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہوں مگر جب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے مشکلات میں  مبتلا لوگوں  کے مسائل کو حل کرتا ہوں تو اس میں ایک خاص راحت ملتی ہے میرے سماجی روحانی محسوسات جو ہیں وہ میری موٹیویشن ہے میں جب لوگوں کی زندگی میں درپیش مشکلات کو کم کرنے کا باعث بنتا ہوں تو اس موقع پر مجھ کو خوشی کے ساتھ حوصلہ بھی ملتا ہے ۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے اور خدمت انسانی میں جو سکون اور اطمینان ملتا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سوال: اس وقت آپ انسانی حقوق کے کن کن پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں؟

میں قومی سطح کے ایک نیٹ ورک ہیومن رائٹس اینڈ سول سوسائٹی نیٹ ورک کا دو سال کے لیے چیئر پرسن منتخب ہوا ہوں اور یہ بڑی اہم ذمہ داری نبھا رہا ہوں اس نیٹ ورک کی طرف سے ہم ملک کے کئی شہروں میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور نوجوانوں کی تربیت کر رہے ہیں اور میں مختلف سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر اگاہی اور تربیتی پروگرام بھی انعقاد کر رہے ہیں میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس کا سبجیکٹ بھی پڑھا رہا ہوں اس کے علاوہ کئی تنظیمیں اور ادارے بحیثیت ٹرینر میری خدمات بھی لیتے ہیں ہم اس وقت ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ٹرینرز کی ٹیم تیار کر رہے ہیں اور ہر تین ماہ بعد ٹرینرز کی ٹریننگ( TOT) کے لیے ورکشاپ بھی منعقد کرتے ہیںاس کے علاوہ ہم دسمبر میں انسانی حقوق کی ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد بھی کر رہے ہیں اور جن پراجیکٹ کا میں نے ذکر کیا ہے یہی پراجیکٹ میرے چل رہے ہیں اور انہی پر کام جاری ہے۔

سوال: آپ اس وقت کون سی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھا رہے ہیں نیز آپ کا تدریسی تجربہ کتنا ہے؟

میں نے 1982 سے گرجویشن لیول سے پڑھانا شروع کیا اور اب یونیورسٹی لیول میں پڑھا رہا ہوں اس وقت میڈیکل کے ایک پرائیویٹ کالج سے بھی وابستہ ہوں اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام اباد کے دو ڈیپارٹمنٹ میں پڑھا رہا ہوں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بھی ان لائن پڑھاتا ہوں اس کے علاوہ ساہیوال میں ڈسٹرکٹ فارم سے بھی منسلک ہوں ایک معروف ادارے فافن کے ساتھ بھی کام کر چکا ہوں اس کے علاوہ کئی قومی اور بین القومی اداروں کے ساتھ کام کر چکا ہوں جبکہ درس و تدریس کے شعبے سے میری وابستگی کو چالیس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔

سوال:وہ لوگ جو انسانی حقوق کے میدان میں کام کرنا چاہتے ہیں، انہیں آپ کیا مشورہ دیں گے؟

 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ انسانی حقوق کا کام کرنے کے لیے مضبوط ارادے اور ہمت کی ضرورت ہے اس جدوجہد میں انے والے چیلنجز سے نہیں گھبرانا چاہیے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے لیے ہم ایک بڑی سہولت فراہم کر رہے ہیں کہ وہ  ہیومن رائٹس اینڈ سول سوسائٹی نیٹ ورک (HRCN)  کو جوائن کریں اس نیٹ ورک کے تحت ان لوگوں کو جو ہیومن رائٹس کو بطور کیریئر لینا چاہتے ہیں ہم ان کو مانیٹرنگ ایڈوکریسی لابنگ رپورٹنگ اور دوسرے ٹریننگ کے مینولز کی ٹریننگ بھی دیتے ہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے یہ نیٹ ورک بہت مفید پلیٹ فارم ہے جس سے انسانی حقوق کے کارکنوں کو استفادہ حاصل کرنا چاہیے میں اخر میں ہیومن رائٹس واچ میگزین کی ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنی باتیں قارئین تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top