انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے والا ایک غیر جانبدار میگزین

مجوزہ پنجاب لیبر کوڈ پر مزدوروں کے تحفظات

روشن لعل

روشن لعل

ہمارے ہاں، جہاں لوگ بلاتعامل محنت کی عظمت کا دم بھرتے ہیں  وہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے مسائل کو اجاگر کرنے والے خال خال نظر آتے ہیں۔ یہاں محنت کشوں کے مسائل، جذبات اور تحفظات کو کس قدر کم اہم سمجھا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنجاب حکومت نے مزدوروں سے متعلقہ گزشتہ تمام قوانین کے متبادل کے طور پر پنجاب لیبر کوڈ 2024 کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا  جس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تمام مزدور تنظیمیں مسترد کر چکی ہیں لیکن میڈیا میں کہیں بھی اس بات کا ذکر سننے اور دیکھنے کو نہیں ملا۔

وطن عزیز میں مزدوروں کے معاملات سے لاتعلقی کے مظاہر جس طرح اب دیکھنے میں آرہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عالمی اور مقامی سطح پر مزدوروں کے لیے ہمیشہ اس وقت قانون سازی کی گئی جب مزدور تنظیموں نے کسی تحریک کے دوران اس کا مطالبہ کیا۔ماضی میں مزدورں کے لیے کی گئی قانون سازی کے دوران چاہے ان کی تمام خواہشات کو ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا ہو لیکن شاید ہی ایسی کوئی مثال ہو کہ ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوششیں کیے بغیر ان پر کوئی قانون مسلط کردیا گیاہو۔

 دنیا میں محنت کشوں  کے لیے الگ قوانین بنانے کا جواز اس وقت پیدا ہوا جب انہوں نے اپنے لیے بہتر حالات کار کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔مزدوروں کے مطالبات کی وجہ دراصل ان کے آجرین کی طرف سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش میں پیداورای لاگت کم کرنے کے لیے مزدوروں کی اجرت میں کمی کرنا تھا۔  پیداواری عمل سے وابستہ آجر اور اجیر کے بالعکس مفادات کی وجہ سے ایسے قوانین کی تشکیل کا آغاز ہوا جو ان کے باہمی تعلق میں توازن پیدا کر سکیں اور تنازعات نمٹا سکیں۔اس سلسلے میں پہلی قانون سازی برطانیہ میں 1802  میں فیکٹری ایکٹ کے نام سے کی گئی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں بنائے گئے اس قانون کی کل 12شقیں تھیں جن میں فیکٹری مالکان کو فیکٹری میں کام کرنے والے بچوں، عورتوں اور مردوں کے حالات کار کو ایک معیار کے مطابق رکھنے کے لیے کہا گیا تھا اور ایسا نہ کرنے والے مالکان کے لیے جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی تھی۔ جرمانہ عائد ہونے کی شقوں کے باوجود اس دور کے فیکٹری مالکان نے اس قانون کے مطابق عمل نہیں کیا کیوں کہ اس قانون پر عملدرآمدکو یقینی بنانے کے لیے کسی ادارے یا فرد کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔ فیکٹری مالکان نے جب اس قانون کو یکسر نظر انداز کیا تو اس کے بعد اسے ایک ناکام قانون تصور کیا گیا۔

گو کہ مزدوروں کے لیے بنایا گیا پہلا قانون ہی ناکام ہو گیا لیکن یہ قانون اس سلسلے میں حرف آخر ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کے بعد مزدوروں کے مطالبات کے زیر اثر ان کے حقوق کے نام پر قانون سازی کا ایسا سلسلہ جاری ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ برطانیہ میں آجر اور اجیر کے تعلقات کے حوالے سے 1832  کے ماسٹر اینڈ سرونٹ ایکٹ جیسے مزدور دشمن قوانین بھی بنتے رہے جن کے مطابق مزدوروں کو اکٹھا کرنے اور انہیں یونین سازی کی ترغیب دینے والے مزدور رہنماں کو قید اور جرمانے کا مستحق ٹھہرا یا گیا۔ اس کے علاوہ  مساوی اجرت (Equal pay) ایکٹ جیسے قوانین بھی سامنے آتے ہے جنہیں مزدوروں کے حقوق کے عین مطابق سمجھا جاتا ہے۔

 برطانیہ میں مزدوروں کے لیے ہونے والی قانوں سازی کا اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑا۔ برطانیہ کے بعد جرمنی دوسرا ملک تھا جہاں 1878  میں مزدوروں کے لیے قانون سازی کا آغاز ہوا۔ فرانس میں اس سلسلے کی پہلی قانون سازی والڈ روسو لا کے نام سے 1884 میں ہوئی۔ امریکہ میں مئی 1886  کے شکاگو کے واقعات کے بعد مزدوروں کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے جس کے بعد 1912  میں پہلی مرتبہ مزدوروں کے لیے دن میں آٹھ گھنٹے کے کام کے اوقات کو تسلیم کیا گیا۔ان بڑے ممالک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی مزدوروں کے لیے قانون سازی کا عمل جاری رہا۔

قیام پاکستان کے بعد یہاں بمبئی میں رائج لیبر قوانین کے ماڈ ل کو اپنایا گیا۔ اس کے بعد پاکستان میں مختلف حکمرانوں کے ادوار میں ان کی تیارکردہ لیبر پالیسیوں کا نفاذ ہوتا رہا۔ یہاں سب سے پہلی لیبر پالیسی 1955  میں نافذ ہوئی جس کے بعد1972,1969,1959   اور 2002 کے بعد پورے ملک کے لیے چھٹی اور آخری لیبر پالیسی مئی 2008  میں نافذ کی گئی۔ مندرجہ بالا باتوں کے بیان سے یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ 1802  میں مزدوروں کے لیے برطانیہ سے شروع ہونے والا قانون سازی کا عمل کبھی ٹھہرا کا شکار نہیں ہوا بلکہ ہر نئے آنے والے دور کے مطابق اس کا ارتقائی سفر ہنوز جاری ہے۔ اپنے ارتقائی سفر میں مزدوروں کے لیے بنائے گئے قوانین اب کئی شعبوں پر محیط ہیں۔ ان میں مستقل اور عارضی یا کنٹریکٹ ملازمین کے لیے علیحدہ علیحدہ قوانیں موجود ہیں اس کے علاوہ کم سے کم اجرت، کام کے اوقات کی حد، اوور ٹائم، اوور ٹائم کے اوقات کی حد، ہیلتھ اینڈ سیفٹی، انشورنس، اولڈ ایج بینیفٹ، غیر امتیازی رویہ، ملازمت سے برخواستگی، یونین سازی کا حق اور ہڑتال کا حق وغیرہ  کے لیے بھی علیحدہ قوانین موجود ہیں جن میں مزدوروں کے مطالبات اور وقت کی ضرورتوں کے مطابق تبدیلیاں اور ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔

 پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی سطح پر پورے ملک کے لیے یکساں لیبر پالیسی جاری ہونے کی بجائے ہر صوبے کو اپنے مزدوروں کے لیے الگ  سے قانون بنانے کا اختیار مل گیا۔ صوبوں کو  اپنے مزدوروں کے لیے قانون سازی کا اختیار منتقل ہونے کے بعد توقع یہ کی گئی تھی کہ صوبے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے مزدوروں کے لیے بہتر سے بہتر قوانین بنانے کی کوشش کریں  گے لیکن اس توقع کے برعکس صوبوں نے جو قانون سازی کی اس میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے عنصر کو سرے سے ہی نظر انداز کر دیا۔ حالیہ مجوزہ پنجاب لیبر کوڈ 2024 کے متعلق بھی تمام مزدور تنظیموں نے یہ مشترکہ موقف ظاہر کیا ہے کہ اس کی تیاری کے دوران مزدورنمائندوں کی رائے کو شامل نہ کرنے اور انہیں اعتماد میں نہ لینے کا واحد مقصد یہی ہے کہ حکومت مزدوروں کے جائزدیرینہ مطالبات کو نظر انداز کر کے ایک ایسا قانون منظور کرنا چاہتی ہے جو آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق ہو اور آجروں کے مفادات کا تحفظ کر سکے۔

 

مزدور تنظیموں کے نمائندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا دیرینہ مطالبہ تو صنعتوں سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ کر کے ہر مزدور کو یونین سازی اور ای او بی آئی اور سوشل سکیورٹی کا حق دلوانا تھا لیکن اس مطالبے کو نظر انداز کر کے ایک ایسا قانون بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے تحت انہیں پہلے سے حاصل حقوق کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی بنا پر مزدور تنظیموں نے پنجاب لیبر کوڈ 2024 مسترد کر دیا ہے لیکن ان کے اس عمل کی بازگشت میڈیا میں کہیں سنائی نہیں دے رہی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top