خوراک اور ہوا کے علاوہ، جس تیسری شے کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں ہو سکتا اس کا نام پانی ہے۔ پانی کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے جدید سائنس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ معیاری زندگی جینے کے لیے صرف پانی نہیں بلکہ صاف پانی پینا ضروری ہے۔
جدید سائنس کے کے تقاضوں نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ صاف پانی کے حصول کے لیے کسی فلٹریشن پلانٹ پر قطار میں کھڑا ہونا اور اپنی باری پر برتن میں پانی بھر کر گھر لانا پڑتا ہے۔ کبھی فرصت ہو تو غور کیجئے گا کہ موجودہ جدید دور میں ہم اس قدیم دور کے کتنے نزدیک ہوگئے ہیں جس میں پینے کے لیے پانی کسی کنویں، دریا یا ندی نالے سے مٹکے میں بھر کر لایا جاتا تھا۔
ویسے زیادہ غور کرنے کی بھی ضرورت نہیں جدید اور قدیم دور میں تبدیلی صرف برتن کی بناوٹ اور میٹریل میں آئی ہے باقی مشق تو وہی پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں پینے کے لیے جو پانی رکھا جاتا تھا اس کے متعلق کبھی کسی نے ایسے نہیں کہا تھا کہ یہ صاف یا آلودہ ہے۔ پہلے وقتوں میں پانی جیسا بھی ہوتا تھا اور جہاں سے بھی لایا جاتا تھا اسے پی کر یہاں اچھے بھلے گاما پہلوان جیسے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ پھر یہاں انگریزوں کا دور حکومت آیا جس میں ہمیں فراہمی آب کے جدید طریقوں سے روشناس کرایا گیا۔
اس دور میں فراہمی آب کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا کہ نکاسی آب کا مناسب نظام کیا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں فراہمی و نکاسی آب کے سائنسی نظام کو مکمل ضابطوں کے تحت محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ذریعے یہاں تعمیر کیا گیا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد بھی، ان کے دیئے ہوئے فراہمی و نکاسی آب کے نظام کے مطابق یہاں لوگ گھروں میں ٹونٹی سے دستیاب پانی پیتے رہے۔
مٹکوں کے زمانے سے سرکاری نل کے دور تک لوگوں کو کبھی یہ ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ پینے کے لیے استعمال کیے جانے والی پانی کو دیکھ کر پوچھیں کہ کہیں یہ آلودہ تو نہیں ہے۔ نل سے دستیاب پانی کا معیار پرکھنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی، جب لوگ اسے پی کر د ھڑا دھڑ پیٹ اور معدے کی بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے۔ اس صورتحال میں جب سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کردہ پانی کو پرکھا گیا تو یہ خوفناک نتائج سامنے آئے کہ جس پانی کو ہم پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ نہ تو کیمیائی طور پر معیاری اور نہ ہی مائیکرو بیالوجی کے نقطہ نظر سے پینے کے قابل ہے۔ جب پینے کے پانی کے آلودہ ہونے کی وجوہات تلاش کی گئیں تو یہ باتیں سامنے آئیں کہ ایک تو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور استعمال شدہ گندے پانی کے نکاس کی پائپ لائنیں سائنسی اصولوں برعکس ایک دوسرے کے انتہائی قریب نصب ہیں اور اس پر ستم یہ کہ ان کی تنصیب کے لیے انتہائی ناقص میٹریل استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ فراہمی آب کے لیے ٹیوب ویلوں کی بورنگ تسلیم شدہ ڈیزائن کے مطابق اتنی گہرائی تک نہیں کی گئی جہاں زمین کی تہوں میں معیاری اور صاف پانی موجود ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ اس عمل کے دوران کون کون سے اعلی عہدوں پر فائز تعلیم یافتہ انجینئروں نے رشوت اور کمیشن کی کمائی سے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اجلے لباس پہننے والوں نے اپنے گندے افعال سے جس پانی کو آلودہ کیا اسے صاف کرنے کا یہ حل نکالا گیا کہ ہر گلی محلے میں واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کر دیئے جائیں تاکہ وہاں سے مرد حضرات اسی طرح گھروں میں پانی لائیں، جس طرح پرانے زمانوں میں کبھی عورتیں مٹکوں میں بھر کر لایا کرتی تھیں۔
نئے زمانے میں ماضی کی طرح پانی بھرنے کی مشق کے باوجود بھی ہمیں پینے کے لیے مطلق صاف پانی دستیاب نہیں ہو سکا۔ شومی قسمت کہ پانی کے فلٹریشن پلانٹوں کی تعمیر بھی ان انجینئروں کے ذریعے کروائی گئی ہے جو فراہمی و نکاسی آب کی پائپ لائنوں کا ملاپ کر کے ہمارے لیے آلودہ پانی کی فراہمی کا بندوبست کرتے رہے۔
شاید ان انجینئر وں کے سابقہ کارناموں کے پیش نظر ہی فلٹریشن پلانٹوں کے لیے فنڈز مہیا کرنے والے یو این او کے مطالبے پرحکومت کی طرف سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ نو تعمیر شدہ فلٹریشن پلانٹوں سے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کر کے یہ بتائیں کہ پانی آلودگی سے پاک ہوچکا ہے یا جوں کا توں ہے۔
یہ شہباز شریف کے وزارت اعلی کے دور کی بات ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی طرف سے پنجاب کے مختلف شہروں کے فلٹریشن پلانٹوں سے اکٹھے کیے گئے پانی کی نمونوں کے تجزیے کی رپورٹ باقاعدہ اجرا سے پہلے ہی منظر عام پر آگئی جس کے بعد ایک انگریزی اخبار میںمیں یہ خبر شائع ہو ئی کہ پانی کے کیمیائی اور مائیکروبیالوجیکل تجزیوں کے مطابق فلٹریشن پلانٹوں کا پانی بھی آلودگی سے مکمل پاک نہیں ہے۔
اخبار کی خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پانی کے نمونوں کی تجزیاتی رپورٹ کے اجرا میں تاخیر کی وجہ یہ بنی کہ مختلف شہروں میں موجود واسا کے اعلی حکام پنجاب فوڈ اتھارٹی پر دبائو ڈالتے رہے کہ ان کے خلاف آنے والی رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا جائے۔ خیر یہ تو ماضی کی بات ہے جبکہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں جو واٹر فلٹریشن پلانٹ تعمیر کیے گئے تھے ان کی بہت بڑی تعداد بروقت مرمت نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہے اور جو چل رہے ان کا پانی بھی طے شدہ معیار کے مطابق صاف نہیں ہے۔
صاف پانی کے طالب و متلاشی لوگوں پر ستم کی انتہا یہ بھی ہے کہ یہاں بند بوتلوں میں ملنے والے پانی کو بھی معیاری اور آلودگی سے پاک قرار نہیں دیا جاتا۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی تحقیق کے مطابق یہاں بوتلوں میں بند پانی بھی آلودہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بوتلوں میں صاف پانی فراہم کرنے کا دعوی کرنے والے بھی اپنے کاروباری معاملات میں شفاف نہیں پائے گئے۔
پاکستان میں دستیاب بوتلوں میں بند پانی ویسے تو ہر خاص و عام کی ضرورت بن گیا ہے مگر اس صنعت سے وابستہ لوگوں میں سے کچھ کے رویے ایسے ہیں جنہیں ہر گز انسان دوست تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ بوتلوں میں بند پانی کی فراہمی صنعتی عمل کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ ویسے تو یہاں مجموعی طور پر صنعتی افزائش کا طے شدہ ہدف کبھی بھی پورا نہیں ہو ا مگر ناجائز منافع خوری کے وسیع امکانات کے سبب بند بوتلوں کی صنعتوں اور پلانٹ کی تنصیب میں یہاں دن دگنی رات چوگنی نمو دیکھنے میں آرہی ہے۔
پانی کو آلودہ کر کے مال بنانے والے انجینئروں اور صنعت کاروں کے احتساب کا مطالبہ اب کس سے کیا جائے ، یہاں تو محتسب کے منصب پر فائز لوگوں کے احتساب کے مطالبات زوروں پر ہیں۔ اسی سبب زیر نظر تحریر کے ذریعے سے یہاں صرف یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر وطن عزیز میں کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم، کاربونیٹ، ہائیڈروجن کاربونیٹ، کلورائیڈ، سلفیٹ، نائٹریٹ اور فلورائیڈ کی ضروری مقدار سے زیادہ آمیزش والا آلودہ پانی پینے کو ملتا رہا تو ہمارے معاشرے کے اکثر لوگوں کے پیٹ کی دردناک بیماریوں کے علاوہ کینسر اور ہڈیوں کے ٹیڑھا ہونے جیسے بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات مزید سے مزید تر ہوتے جائیں گے۔
روشن لعل