وہ تینوں بوہڑ کے پچاس سالہ جنات والے درخت کے نیچے سے اٹھ کر جارہے تھے ۔ کسے خبرتھی آنے والے لمحے تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ وہ عمر ہی چبنیلیوں جیسی ہوتی ہے ۔۔اپنے دل کی خواہش ہی دوسرے کی شخصیت لگتی ہے۔ یونیورسٹی میں ایک ماہ گزر جانے پر بھی ایک دوسرے کو صحیح طور پر جان لینا مشکل تھا۔۔
مگر یہ کلیہ بہرحال تمنا گردیزی پر صادق نہیں اترا۔ پریویس کی کلاسیں شروع ہوئے چند دن گزرے تھے کہ سب تمنا گردیزی سے متعارف ہو گئے۔ یہ تعارف مکمل تھا یا نہیں ۔۔یہ بات دیگر تھی ۔مگر سب کو کھراہی لگتا ۔کیوں کہ ۔۔کوئی کہتا بھی تو کیا ۔۔اس کا جھوٹ بھی چمکتے سورج کی طرح روشن اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چمک رکھتا ۔ کوئی کہتا تمنا منہ پھٹ ہے ، وہ برملا اعتراف کرلیتی۔
ایک کے بعد دوسرے آنے والے لڑکے کو پہلے کے بارے میں بتاتے کبھی نا شرماتی ۔۔اور پھر چند روز میں موجودسے بور ہوکر راہ تکتے کسی دوسرے کو خوا ر کر نے کا اشارہ مل جاتا ۔لڑکے تو لڑکے سحرش جیسی قابل لڑکی بھی تمنا گردیزی کی چھا جانے والی ہستی سے مرعوب تھی ۔۔اور قسمت تو دیکھئے جس کے ساتھ گھڑی دو گھڑی بیٹھنا اولین خواہش عام تھی ،وہ سحرش سے پوچھ رہی تھی ۔سحرش کیا میں تمھارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں ؟ وہ اس وقت گہرے نیلے رنگ کی چست جینز پینٹ اور کھلے کرتا قمیص میں سات رنگوں والی شال میں ملبوس سحر قہر نما سب کچھ ڈھا رہی تھی ۔
سحرش نے اس کے سراپے میں محو مشینی انداز سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کھڑے ہو کر اپنے ساتھ بیٹھنے کی پیش کش کرتی ہے ۔ سحرش کی اِس ادا پر تمنا گردیزی نے اپنی ڈھیلی ڈھالی ادھ کھلی پونی ٹیل ہلاتے اس کا شکریہ ادا کیا تو تمناکے شفاف چہرے کی رنگت گلابی جھلک دکھانے لگی ۔۔سحرش نے ایک نظر ارد گرد ڈالی تو پتا چلا کہ گردو نواح میں سمیت اس کے سبھی کی نگاہیں تمنا کی تمنا کیے ہوئے تھیں۔۔۔۔گزرتے وقت کے ساتھ پڑھاکو زیاد بھی تمنا اور سحرش کے ساتھ تیسرا ہو گیا ۔
ہر بات کر لینے کے باوجود تینوں ایک دوسرے کے ساتھ نصیحت میں نہیں تھے ۔یونیورسٹی میں آنے کے بعد پانچ ماہ میں چار لڑکے تمنا کی بوریت کا شکار ہو چکے تھے ۔آڈیٹوریم کی سیڑھیوں پر بیٹھے تمنا سفید کرتا قمیص اور گہری نیلی جینز کے ساتھ سفید شال میں ملبوس کسی پرستان کے تخت پر براجمان، ملکہ پری لگ رہی تھی ۔وہ پیز اکھانے کے ساتھ ساتھ ماضی بن جانے والے شانواز کے ساتھ ہو گزرے بوریت کے قصے بھی سنا رہی تھی ۔
ویسے عام طور پر تو دو ایک جیسی عادات کے لوگوں کی دوستی ہو جاتی ہے ۔۔یہاں تم دونوں شرقا غربا ہو ۔یہ تمنا صرف اپنی کہے جانے اورلوگوں کو برباد کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے ۔۔اور تم سحرش بی بی !تمھیں شاید لفظ شاید خریدنے پڑتے ہیں ۔
تمنا یوں مسکرائی ۔۔گویا بربادی کی سند ایک تمغہ ہے ۔تمنا ! تمھیں برا کیو ں نہیں لگتا ؟تمنا کھل کر ہنستے ہوئے کہتی ہے ۔سحرش اس نے وہی کہا ۔۔جو میں کرتی ہوں ،میں اِس بات کا برامانوں کہ میرے کرنے کو اس نے بیان کیوں کیا ۔۔اس کے بعد تمنا زیاد کی طرف رخ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔اور مسٹر زیاد میری دانست میںساتھ میں ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے ۔ ہیں ۔۔۔؟یہ نئی دریافت سامنے آئی ہے ۔۔آج تک تو یہی سنا تھا کہ عادات کا مطابقت میں ہونے سے ساتھ مستقیل ہو جاتا ہے ۔۔یہاں ۔۔۔ بھئی میں نے اپنی عقل کی بات کی ہے ۔۔یہ کب کہا کہ یہی آفاقی سچ ہے ۔
تمنا نے خبیث مسکراہٹ کے ساتھ سحرش کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔سحرش فورا نوٹ بک کھول کر تمنا کا غیر رسمی سچ نوٹ کرنے لگی ۔۔یہ دیکھ کر زیاد بھی ہنسنے لگا ،جیسے ہی سحرش نے نوٹ بک بیگ میں رکھی ۔۔زیاد بول اٹھا ۔۔اچھا تو تمھارے اٹھائے گئے نکتے کے لحاظ سے سمجھ نا آنے پر انسان ساتھ رہتا ہے ۔یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم دونوں کو ایک دوسرے کی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی ۔۔اِس لیے ساتھ ہو ۔۔کیا میں نے درست کہا ؟سحرش نے گردن گھما کر تمنا کی طرف دیکھا ۔تو تمنا ایک بار پھر سحرش کی نوٹ بک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔
ہمم! مجھے تو سحرش کی سمجھ آ گئی ہے ۔۔اِسے میری نہیں آئی ۔وہ کیسے ۔۔؟اِس کی نوٹ بک دکھائی نہیں دیتی ۔۔زیاد کے سوال پر تمنا کپڑے جھاڑتے ہوئے بولی ۔زیاد تمنا کی بے پراوئی اور سحرش کی نوٹ بک کو نظرانداز کرتے ہوئے بولا ۔۔۔تمنا گردیزی ۔۔اگر دوسرے کی سمجھ آ جائے تو پھر ۔۔۔؟
پھرکیا ۔۔پھر دونوں ایک دوسرے کو یاایک کسی دوسرے کو چھوڑ دیتا ہے ۔جیسے تم چھوڑ دیتی ہو ۔۔یعنی تمھیں سمجھ آ جاتی ہے ۔۔دوسرے لڑکے کو تمھاری سمجھ نہیں آتی ۔۔؟سحرش کے سوال پر تمنا فورا بولی ۔۔بس یار! ابھی کلاس ختم کر کے بیٹھے ہیں۔۔تم دونوں نے یہاںشروع کر دی ۔تمھیں ریسرچر بننا ہے ۔۔مجھے نہیں ۔۔ سحرش منہ کھولے تمنا کو دیکھتے گئی۔۔زیاد نے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے ایک بار پھر سحرش کو نشانہ بنایا ۔۔۔اور سحرش بی بی ! تم نفسیات اور فلسفے پر طبع آزمائی کرنے کے بعد مستقبل قریب میں ریسرچر بننے جا رہی ہو ۔۔اور عالم تو یہ ہے کہ اپنی اس دوست کو سمجھ نہیں پا رہیں۔۔جس کو کبھی کچھ نہیںچھپانا ہوتا ۔
زیاد کی بات پر سحرش نے برا سا منہ بنایا ۔۔جب کہ تمناکھلے دل سے ہنسنے لگی ۔۔ اسی وقت فائنل ائیر کا اسد ہیرو ۔۔اپنی ذومعنی باتوں کے سمیت آ موجود ہوا ۔۔۔اور کچھ دیر کی کوششوں کے بعد تمنا کے حضورکافی کی پیش کش قبولیت کی سند پا چکی تھی ۔اسد کے خوشی خوشی چلے جانے کے بعد سحرش نے اپنے ماتھے پر ایسے ہاتھ رکھا جیسے کہہ رہی ہو ۔۔اے اسد تیرے انجام پہ رونا آیا ۔۔جب کہ زیاد سیڑھیاں چڑھتے اسد کی پشت کو دیکھ کر پیٹ پکڑ کر ہنستے ہوئے کہتا ہے ۔جب ہر کوئی جانتا ہے ۔۔بہت ہو اتو ایک ماہ بعدمحترم کا انجام بہ خیر نہیں ہو گا۔۔پھر بھی خوشی خوشی چلے جانے کے لیے محترمہ کے حضور چلے آتے ہیں۔۔دراصل ہر ایک کو اپنی جیب میں رکھے آئی لو یو پر گمان ہوتا ہے ۔
سحرش نے ٹکڑا جوڑا۔ تمنا اپنی خوبصورت آنکھوں کو مکمل کھولتے ہوئے پہلے سحرش اور پھر زیاد کو گھورتے ہوئے بولی۔چلے تو تم بھی آئے تھے ۔۔اِس بارے میں کیا خیال ہے ؟اب جاو ! مجھے سحرش سے کچھ کا م ہے ۔کوئی بلاوجہ نہیں آ سکتا ۔۔کیا تمھارے پاس آنے کے لیے ایک مہینے کی محبت کاہونا ضروری ہے ؟ہاں ! تمنا نے نے قطعئی سنجیدگی سے کہا توزیاد کے زچ ہوجانے والے چہرے کو دیکھ کر کبھی کبھار ہنسنے والی سحرش بھی نا رہ سکی ۔ جانے کے لیے کھڑاہوا زیاد کتابوں کو سیڑھی پر پٹختے ہوئے ٹانگیں پسار کرڈھٹائی سے بولا ۔اب نہیں جاتا ۔۔جو بھی کر لو ۔۔سحرش اور تمنا سے ایک سیڑھی نیچے بیٹھے زیاد نے اپنی پشت پر بیٹھی سحرش اور تمنا کی طرف دیکھے بنا بات جاری رکھی ۔۔یوں بھی میں اِس بوریت کی پوٹلی کے لیے آیا تھا ۔
زیاد نے سحرش کی طرف شہادت انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔جواب میں دونوں لڑکیاں کتاب پر کچھ کام کرنے میں مصروف رہیں تو زیاد براسا منہ بناتے ہوئے دودو سیڑھیاں پھلانگتے نیچے اترنے لگا ۔۔پہلی اسائنمنٹ کی بے چینی اور طرح کی تھی ۔۔اب کہ اپنا معیار قائم رکھنے کی خواہش اپنے عروج پر تھی ۔۔حسب ِتوقع سحرش پہلے نمبر پر رہی ۔زیاد دسرے اور تمنا تیسرے پربھی خوش تھی ۔تمنا اور سحرش جنات والے بوہڑ کے درخت کے نیچے بیٹھیں چنا چاٹ اور اسائنمنٹ میں اچھے نمبروں کی وجہ سے محظوظ ہو رہی تھیں ۔۔۔تو اسد جیسا خوب رو ہیرو بھی رد ہو ا۔۔۔اِس نے مہینہ بھی پورا نہیں کیا ۔ہوں !اس کی ہر بات میں سے شروع ہو کے میں پر ختم شد کا نعرہ لگاتی ہے ۔۔جب دو لوگوں میں دونوں جانب ایک نے ہی ہونا ہے تو پھر دوسرے کی ضرورت بھی کیا ہے ۔
کیا مطلب ؟ تمھارے ساتھ کوئی ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے ؟سحرش نے سوں سوں کرتے ہوئے حیرانی سے پوچھا،توتمنا نے پانی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا ۔ بات یوں ہے ۔۔سحرش مسکرا دی ۔۔یہ تمنا کاپسندیدہ فقرہ تھا ۔اسے وہ اس وقت استعمال کیا کرتی جب کسی بات کی وضاحت کرنا ہوتی ۔بات یوں ہے کہ اسد میرے سامنے توکیا میری غیر موجودگی میں بھی میرے ساتھ رہنا چاہتاتھا ۔۔۔اور یہ وفا کی اعلی صورت ہے ۔۔۔تو پھر ۔۔پھر کیا تم نے اسے عادتا چھوڑ دیا ؟رکو! یہیں رک جاو ۔پہلے تمھاری دوسری بات کا جواب دے دوں ۔۔پھر اسد کی کتاب بند کرتے ہیں ۔۔سحرش کے چہرے پر بھرپورتجسس واضح دیکھا جا سکتا تھا ۔جب کہ تمنا کے چہرے پر ایک سادگی سے بھری بے اعتنائی تھی ۔۔جیسے زمانے بھر کی پروا نا ہو ۔تم نے ایک لفظ بولا عادتا تو سحرش آج میںبتا ہی دیتی ہوں ،میں نے کبھی کسی کو چھوڑ نے کا نہیں سوچا ۔۔تم لوگ جسے میرا کھیل سمجھتے ہو ۔۔وہ دراصل ہرآنے والے کو خوش آمدید کہنا ہوتا ہے ۔۔میرا کام تو یہیں تک ہے نا ۔یہ توآنے والے پر ہے ،وہ کتنا اور کیسے قیام کرتا ہے ۔۔سحرش تمنا گردیزی کے انکشافات پر ہک فک بیٹھی تھی ۔۔ہاتھ میں پکڑا چمچ منہ تک جانے کی بجائے راستے میں رکا ہوا تھا ۔۔۔رہی بات اسد کی ، وہ میری موجودگی میں تو کیا ۔۔میرے نا ہونے پر بھی میرے ساتھ ہونا چاہتا تھا۔مگر ۔۔مزے سے چاٹ کا چمچ منہ میں بھرنے کے بعدتمنا کے خاموش رہنے پر سحرش نے چمچ پلیٹ میں دھرتے ہوئے تیزی سے کہا ۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔جب اتنا کچھ ہے ۔۔اورتم عادتا بھی نہیں چھوڑتیں ۔۔تو پھر یہاں مگر کیوں ہے ؟تمنا نے چاٹ کی پلیٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ہاں ! یہاں ایک مگر ہے ۔۔اور ایسا مگروجوہات سے نہیں جبلت سے تعلق رکھتا ہے ۔یعنی ۔۔۔سحرش نے چونک کر کہا ۔یعنی یہ کہ وہ چاہتا تو یہی ہے جو میں نے بتایا ۔۔لیکن وہ فطرتاخود پسند انسان ہے ۔۔اس کا دل میرے لے اچھا ہو سکتا ہے ۔۔مگر اس اچھائی کو عمل میں لانا اس کے لیے ناممکن ہو رہا تھا۔ یوں چاہت اور کر چکنے کی ہمہ وقتی جنگ سے جس روز اس نے تھک یا اکتا جانا تھا ۔۔اس دن میں غلط لگنے لگتی ۔۔اور اتنا تو تم بھی مجھے جانتی ہو کہ میری شخصیت اور ذات میں کوئی فرق نہیں ۔۔میں جو ہوں وہی دکھاتی ہوں ۔۔۔یار یہ چاٹ کچھ کم نہیں دینے لگا ۔سحرش نے سرعت سے کہا۔۔۔ تم میری پلیٹ لے لو ۔تمنا میری بات سنو! اِس کا مطلب تم محبت ہی کی پیش قدمی کرتی ہو ۔۔۔جو ناکام ہو ۔۔ہو جاتی ہے ۔۔اور آنے والا تمھیں اِس حد تک زچ کر دیتا ہے کہ تم اسے جانے کا اشارہ دے دیتی ہو ۔۔تمنا گردیزی نے سحرش کی پلیٹ اٹھانے اور اثبات میں سر ہلانے میں ایک پل نا لگایا ۔۔سحرش بی بی زندہ باد ۔۔تمنا بی بی پائندہ باد ۔۔پیچھے سے زیاد کی آواز پر دونوں نے بالکل بھی مڑ کر نا دیکھا ۔نا سہی ۔۔میں تو یہ بتانے آیا تھا کہ وہ جمال آفندی واپس آ گیا ہے ۔۔اب اگلی اسائنمنٹ کے لیے نیک دل پریوں کو مشکل کا سمان کرنا پڑے گا۔سحرش اور تمنا نے فورا مڑ کردیکھا ۔۔جس پر زیاد نے دانت نکال دیے ۔میں اس کے والد کی عیادت کے لیے جا رہا ہوں ۔۔اگر تم لوگوں کو جانا ہے تو میرے نقش قدم پر پاوں دھرتی چلی آو۔۔میں ۔۔۔زیاد زورو شور سے جاری تھا ۔۔کہ سحرش اور تمنا اس کے پیچھے سے نکل کر آگے چلنے لگیں ۔کوئی نہیں جانتا تھا، اگلے کچھ لمحے ان کی زندگی کی تاریخ رقم کرنے جا رہے تھے ۔جمال آفندی گمبھیر آواز میں وہ شاعری سنا رہا تھا جو اس نے اپنے والد کی علالت کے دوران لکھی تھی ۔۔دن کے چار بج کر پندرہ منٹ ہوئے تھے ۔۔ تمنا گردیزی جمال آفندی کی اسیر ہو گئی ۔چار بج کر پچیس منٹ پرسب کو خبر ہو گئی کہ تمنا اور جمال ایک دوسرے کے ہو چکے ۔اگلے روز بخار کی وجہ سے سحرش یونیورسٹی نا آ سکی ۔۔اور پھر فلسفہ ایک آفاقی مضمون اور محقق کی اسائنمنٹ کا نتیجہ حیران کن تھا۔۔کیوں کہ جس ہستی کو کم نمبروں پر سر زبیر سے عزت آفزائی کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ زیاد تھا ۔۔پر لطف بات یہ تھی کہ وہ پہلے نمبر پربھی تھا۔۔سحرش کا بخار کم ہونے میں نا آیا ۔۔وہ بیس روز یونیورسٹی نا آ سکی ۔جمال اور تمنا محبت کی اس نہج پر تھے ۔۔جہاں یہ ہونا ہی تھا ۔۔مگر سر زبیر سے معافی اس صورت ملی کہ جلد ہی بہترین نتیجہ پیش کیا جائے گا ۔اس روز بہت دنوں بعد وہ چاروں اکھٹے ہوئے تھے ۔میں اِسے زبردستی لے کر آئی ہوں ۔ اِس نے ابھی چار چھ روز اور گھر گھر کھیلنا تھا۔تمنا نے جمال کی پلیٹ سے کھاتے ہوئے کہا ۔اِس پرسحرش مسکراکر تمنا کو کمر سے جپھی ڈالتے ہوئے مسکرا دی ۔۔وہ تو تم اپنے مطلب کے لیے لائی ہو ۔۔کیو ں کہ اسائنمنٹ اِسی سے بنواوں گی ۔۔بلکہ جمال نے بھی ۔۔تمھیں کیسے پتا چلا ؟تمنا مسکرائی ،جمال اس کے چمکتے گلابی گال اور سنہری رنگت کو دیکھے گیا ۔۔اس کے اِس طرح مبہوت ہونے پر سحرش نے زیاد کواشارہ کیا ۔۔۔کیا کہوں ۔۔نیک دل پری ۔۔تم اتنے دن بعد آئی ہو ۔۔میں یہ سب دیکھ دیکھ کر دیکھتا رہ جاتا ہوں ۔۔دیکھنے سے یاد آیا ۔وہاں آڈیٹوریم کے باہر کون بیٹھاگنگنا رہا تھا ؟کافی رش تھا ۔رہا نہیں ۔۔رہی ۔۔وہ تنزیلہ ہے ۔۔دوسرے شہر سے آئی ہے ۔۔شاعری تو اپنے جمال صاحب کی ٹکر پر کرتی ہے ۔۔مگر رش اس کے چک گاف بے کے حلیے کی زیارت کی وجہ سے ہو گا ۔
۔۔یعنی ۔۔یعنی ۔۔۔عجیب پھولوں والی جھولا قمیض اوراِس پر کڑھائی والی شال ۔۔۔نہیں چادر ۔۔شال تو اپنی تمنا کی ہوتی ہے ۔سحرش کے سوال کے جواب میں زیاد نے مفصل تبصرہ پیش کیا تو ایک دوسر ے میں گم سرگوشی کرتے جمال اور تمنا کو ایک نظر دیکھتے ہوئے سحرش نے زیاد کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔۔سحرش اور زیاد کے اٹھنے پر جمال نے سوالیہ نظروں سے دونوں کو دیکھا ۔۔جس پر سحرش بے اعتنائی سے دوسری طرف دیکھنے لگی ۔۔یہ دیکھ کر زیاد ایک لمحے کے لیے سحرش کو دیکھنے کے بعد جمال کہتا ہے ۔جتنی دیر میں تم دونوںباآوازبلند بول سکو۔۔اتنی دیر میں میں سحرش کو تنزیلہ کا دیدار کروا لاوں ۔۔۔تو کوئی بات نہیں۔سبھی چلتے ہیں ۔جمال نے تمنا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو تمنا نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔وقت جیسے اپنی تیز ترین اڑان پر تھا ۔۔کم از کم اپنے خوشیوں کو پا لینے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے ۔۔ایم ۔اے سالِ اول کے امتحان کی تاریخ مل چکی تھی ۔۔سب جانتے تھے کہ بہت جلد تمنا اور جمال شادی بھی کر لیں گے ۔۔۔مگر ۔۔۔ایک روز کسی کو بنا بتائے یونیورسٹی نا آنے والی تمنا گردیزی پھر کبھی آئی ہی نہیں ۔۔۔اور پتا کرنے پر پتا چلا کہ وہ ملک ہی چھوڑ گئی ۔سب نے جمال اور پھر سحرش سمیت زیاد سے استفسار کی بھرمار کر دی ۔۔مگر سحرش اور زیاد کی طرح جمال بھی حیران اور صدمے میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔وقت کے بیتتے ایک حیران کن بات یہ ہوئی کہ تنزیلہ اور جمال کی دوستی ہو گئی ۔۔وجہ بے شک ان کی مشترکہ پسند ۔۔یعنی شاعری تھی ۔۔مگر اِس کے باوجود سحرش اور زیاد سمیت کسی کو یہ زمین آسمان کا ملاپ قطعئی نا بھایا ۔۔یونیورسٹی نے ان کو اپناپن دے کر رخصت کر دیا ۔۔زیاد ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتا تھا ۔۔ اس نے جانے سے پہلے سحرش کو شادی کی درخواست پیش کی ۔۔جسے سحرش نے رد کر دیاوقت ایک قدم نہیں کئی برس آگے بڑھ گیا ۔سحرش خواہش کے مطابق بہترین ریسرچر بن چکی تھی ۔۔زیاد ملک سے باہر تھا ۔۔ریسرچ کے ساتھ ساتھ بزنس بھی کررہا تھا ۔۔جمال نے تنزیلہ سے شادی کر لی۔جمال کی تمنا گردیزی سے محبت کو دیکھتے ہوئے تنزیلہ نے خود کو تمناکے سراپے میں ڈھال لیا۔جمال اور تنزیلہ کی بیٹی تمنا جمال کے ساتھ سحرش کی بھرپور دوستی تھی ۔بارہ سالہ تمنا جمال اور جمال آفندی جب بھی سحرش سے پوچھتے کہ وہ شادی کیوں نہیں کرتی ۔۔تو جواب میں سحرش افسردگی سے کہتی میری دوست تمنا بھی تو شادی کیے بنا چلی گئی ۔۔۔۔اور ایک روز جب سحرش نے جمال کے پوچھنے پر یہی بات دھرائی تو وہ بول اٹھا ۔تمنا نے مجھ سے تو اِس لیے شادی نہیں کی کہ ہمیشہ کی طرح مجھ سے بھی بور ہو گئی تھی ۔۔اب تمھارا پتا نہیں ۔۔۔جمال کا یہ کہنا تھا کہ سحرش کی آنکھ بھیگ گئی ۔۔تمنا جمال نے جیسے ہی دیکھا وہ تنتنا کر اپنے باپ سے بولی ۔آپ نے سحرش کو رلا دیا ۔۔وہ میری آئیڈیل ہیں۔سحرش میری دوست ہے ۔جمال نے دفاعی انداز سے کہا تو تمنا فورا بولی ۔۔۔تو جو آپ کا دوست ہوتا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہوتا؟اسی وقت تنزیلہ نک سک تیار وہاں سے گزری تو سحرش کی نگاہ میں یونیورسٹی کی تنزیلہ گ ب اپنا عکس دکھانے لگی ۔اس روز کس نے سوچا تھا کہ تمنا گردیزی کا ذکر جی جان سے زندہ ہو جائے گا ۔”فرار تمنا کاوطیرہ نہیں تھا ”۔
جمال آفندی اس تمنا گردیزی سے کہہ رہا تھا ۔۔جسے گزرے وقت نے اور بھی طرح دار بنا دیاتھا ۔جمال کے چہرے پر فقیر کے خالی کاسے کا سا تاثر ابھرتا دیکھ کر تمنا مسکراتے ہوئے بولی ۔تمھارے اندر کے بنتے چور دروازے اور داخل ہوتی تنزیلہ کو دیکھ کر سوچ لیا تھا کہ تمھیں تمام عمر کسی چھید ہوئی جھولی کے پچھتاوے میں رکھنا ہے ۔۔مگر تم توخود کو مظلوم مان کر ہیرو بننے لگے ۔ہوں۔۔توتم سحرش سے وابستہ رہیں ۔۔ٹھیک ہے ۔۔تو اتنے برسوں بعد ملاقات کے لیے کوئی نیا دھکا تو بچا کر رکھا ہی ہو گا ۔یہ ایک تصویر تمھیں بھیجی ہے وہ دیکھ لو ۔جمال نے تمنا کے چہرے سے نگاہ ہٹائے بنا موبائیل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بس ایک نظر ہی دیکھا کہ یونی ورسٹی کے زمانے میں تنزیلہ گاف بے ایک بے ہودہ قسم کی جینز اور چھوٹے سے ٹاپ میں ملبوس کہیں کسی لڑکے سے ہاتھ ملا رہی تھی ۔۔جمال نے ایک گہری سانس لے کر موبائیل ایک طرف رکھ دیا ۔۔کچھ دیر بعد تمنافتح مندی کے احساس کے ساتھ رخصت ہو نے کو تھی کہ جمال نے اس کی پشت پراپنا دفاع پھینکا ۔۔تمنا !ایک عادت کا مشترکہ ہو جانا جرم نہیں ہو سکتا ۔اچھا ! تو پھر گاف بے سے پوچھنا کہ اس نے تم سے شادی کے بعد شاعری کیوں چھوڑ دی ۔جمال گرنے کے سے انداز سے صوفے پر بیٹھ جاتا ہے ۔۔اس سے پہلے کہ تمنا رخصت ہوتی جمال نے اسے روکتے ہوئے چیخ کر کہا۔۔۔تو کیا کبھی تمھارے اندر کسی چور دروازے نے جگہ نہیں بنائی ! جمال میری ہر چوری صدر دروازے سے ہی ہوتی ہے ۔تمنا اپنا جملہ مکمل کرتے ہوئے رکے بنا دروازے کی دہلیز پار کر گئی ۔ جہاں اتنے برس گزر گئے ۔۔توکیوں ۔۔اب یہ سب کیوں تمنا ۔۔۔؟سحرش نے تمنا کو جوس کا گلاس تھماتے ہوئے کہا ۔یار سحرش ! جذبات کو آفاقی سچ میں نے کبھی نہیں بنایا ۔سارا دن ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے روتے گزارنے کے بعد جب تمنا رخصت ہونے لگی تو سحرش کے موبائیل پر بجتی گھنٹی کی آواز پر اس نے بے اختیار فون کی طرف دیکھا ۔۔وہاں پروفائیل پر جمال آفندی کی تصویر آب وتاب کے ساتھ روشن ہو رہی تھی ۔۔اسی وقت غسلخانے سے سحرش باہر آئی اور گھبرا کر فون اٹھا کر تمنا کی طرف دیکھا جو کھڑکی سے باہر کسی نظارے میں محو تھی ۔آنے والے کچھ روز میں جمال سحرش کے کندھے پر سر رکھ کر بہت رویا تھا ۔۔پھر کچھ روز بعد پتا چلا جمال اور تنزیلہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔۔اسی روز زیاد نے تمنا کو بتایا کہ سحرش نے اس سے شادی کے لیے اقرار کا میسیج بھیجاہے ۔صبح نے شام کو گلے لگا لیا ۔۔اور پھر بے شمار صبحیں شاموں میں تبدیل ہو گئیں ۔۔مگر زیاد کا پھر کبھی کوئی فون نا آیا ۔۔تمنا اور سحرش کی دوستی آج بھی قائم ہے ۔۔دیکھنے والے مثالیں دیتے ہیں ۔
عندلیب بھٹی