انسانی حقوق اور سماجی مسائل پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے والا ایک غیر جانبدار میگزین

حسن آوارگی ( افسانہ)

عندلیب بھٹی

عندلیب بھٹی

برسوں بیت جانے پر بھی آتے جاتے وہ بات بے بات ٹھٹھک کر سوچتا ۔۔میں اکیلے یوں بھی مزے میں تھا ۔ وہ کیوں مل گئی ۔۔مل گئی نہیں ۔۔میں ہی توسنسان راہ داریوں میں ایک خراب کہانی کھوجنے نکل گیاتھا ۔۔ اپنی سوچ کو قطعئی جان کر ،برے کو بہت برا اور اچھے کو ولی مان کر جیے جا رہاتھا ۔یہ مکمل سچ میں آدھا جھو ٹ اور سارے کے سارے فریب میں ایک نیکی نکال لینے والی نے اسے کیا سمجھا دیا ۔

چینل کے افسرِ اعلی شاہ زمان صاحب نے ایک روز اپنے دفتر بلا کر کہا۔ ذیشان! ملکہ نسیم کی دھوری کہانی تم ہی مکمل کر سکتے ہو ۔۔وہ اچانک کیسے اور کہاں چلی گئی ۔۔اب کہاں ہے ۔۔؟وہ ماضی کی مشہور و   معروف گلو کارہ کی بات کر رہے تھے ۔ گھر واپس آتے ہوئے بھی ملکہ نسیم کی ادھوری کہانی کو پورا کرنے کے لیے بے تاب تھا ۔۔اور کاش وہ اِس بے تابی کی وجہ جان پاتا۔۔تو جان سے چلا جاتا ،مگر کچھ بھی جاننے کے لیے نا نکل کھڑا ہوتا ۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔۔رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے میں خود سے سوال کر رہا تھا ۔

ہاں! شاید پہلے کبھی منظر کے پیچھے جھانکنے کی کوشش نہیں کی ۔۔اور یہ توپہلی بار بہ ظاہرنئے مگر ایک ہی جیسے واقعات پر سنسنی خیز مواد اکھٹا کرنے کی بجائے میں ماضی کا کوئی قفل کھولنے جا رہا تھا ۔۔ملکہ نسیم طوائف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شہرت یافتہ گلوکارہ بھی تھی ۔۔اور بس ایک روز اچانک کہیں چلی گئی ۔۔وہ وقت تھا جب طوائفوں نے معاشرے میں اپنی جامہ زیبی نہیں بدلی تھی ۔اِس لیے ملکہ نسیم ریڈیو پر گانا گانے کے باوجود اپنے مخصوص علاقے اور حلقے کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں ۔

ایسے میں ملکہ نسیم کا اپنی شہرت کی بلندیوں پرکہیں غائب ہو جانا ایک بڑی بات تھی ۔ میں نے دو چار روز میں ہی ملکہ نسیم کو کھوج لیا ۔ ۔ ماضی کی حسین و جمیل ملکہ کاایک تھکا ماندہ حالیہ عکس دو کمرے اور ایک برآمدے پر مشتمل خستہ حال گھر میںدکھائی دیا ۔ ملکہ نسیم کی دو جڑواں اور ہم شکل بیٹیاںاِرما اور روما تھیں ۔۔اس کے شوہر باو طفیل کی کوئی دس برس پہلے وفات ہوگئی تھی ۔۔۔۔گھر میں مجھے بس اِرما ہی دکھائی دی ۔۔پتا چلا کہ روماکسی دوسرے شہر میں ملازمت کرتی ہے۔اِرما شربت کا گلاس لے کر آئی ۔ ذیشان نے بس ایک نظر ہی توشربت لانے والی کو دیکھا تھا ۔اس مکان سے نکلتے ہوئے وہ اِرما کے عشق میں پور پور ڈوب چکا تھا ۔۔بہر حال حسن اپنے تئیں ایک اثر رکھتا ہے ۔

زمان صاحب کو ملکہ نسیم کے گھر جانے کے بارے میں بتا کر شام کو گھر کی چھت کے کوئی پندہ بیس چکر کاٹ لینے کے بعد ذیشان یہ جان چکا تھا ۔۔کہ ہر کوئی ناں میں ہو تے ہوئے بھی اپنے اندر ایک چھپی ہوئی ہاں رکھتا ہے۔۔اور کہیں نا کہیں اس ہاں کے لیے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے ہوئے ایک موقعے کی تلاش بھی ہوتی ہے ۔اس نے بھی خود کو ایسی ہی ایک ہاں کے لیے مجبور پا کر اس موقعے پر کام کی تختی لگا تے ہوئے اِرما کو کال ملائی ۔۔۔ملکہ نسیم کے گھر سے آئے چھٹے روز ذیشان کی اِرما سے ایک گھنٹہ بیس منٹ فون پر بات ہوئی تھی ۔ذیشان سوچ رہا تھا کہ اِرماجتنی حسین تھی اتنی سادہ مزاج اور معصوم بھی تھی ۔۔فی زمانہ یہ دونوں نایاب اشیاکے اعلان میں تھیں ۔

ذشان شاہ کوحیرانی تو تب ہوئی جب اس نے ملکہ نسیم کو بھی ایک سادہ اور صابر عورت پایا ۔۔چھ روز اِرما سے با ت کرنے کا یہ نتیجہ تھا کہ ملکہ نسیم اپنے بارے میں بات کرنے پر راضی ہو گئی ۔ ذیشان باو! ۔۔حالانکہ محبت کے لفظ سے نفرت سی ہو گئی ہے ۔۔مگر میں اِس کا مستقبل اپنے ماضی کے تجربے پر تونہیں طے کر سکتی ۔۔اِرما تابعدار بیٹی ہے ۔۔مگر جو مانتا جائے ۔۔ اسی سے منواتے جائیں ۔۔؟ملکہ نسیم نے باور کرایا کہ میڑک پاس ملکہ نسیم کے پاس بڑی ڈگری تو نہیں البتہ ریاضت ہے ۔۔۔۔۔تو پھر آج کہہ ڈالیئے ۔۔میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ یہ کبھی نہیں چھپے گا ۔۔

چلو! تمھارے وعدے کی حیات کو بھی دیکھ لی جائے۔ملکہ نسیم کی ابتدائی گفتگو ہی چونکا دینے والی تھی کہ ذیشان کے اندر کا ہوشیار صحافی جاگ اٹھا ۔ہا۔وحشتِ دل کیا کہوں ؟۔۔بات یوں ہے چندا ۔۔بسر کرنے کو سترہ برس ۔۔کہنے کو تین جملے ہاں ! ۔۔مگر کچھ تو درد کی دولت دے ہی ڈالیے ۔ذیشان نے کھوج پر اصرار اور شوق کے رنگین پردے ڈالتے ہوئے ملکہ سے پوچھا ۔ملکہ کچھ دیر سر جھکائے اپنی سات رنگی بوسیدہ شال کے رنگ گنتی رہی ۔۔۔سامنے بیٹھی بہ ظاہر اپنے کام میں مشغول اِرما کو دیکھ کر کہنے لگی ۔آہمم! ذیشان باو!نیا تو کچھ بھی نہیں۔۔ دھوکہ اہم نہیں۔۔بلکہ وہ رنگ آہنگ ہوتے ہیں جنھیں دھوکے کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے ۔ ۔۔مجھے تو آپ کم فہم نہیں لگیں ۔۔؟ ذیشان نے خود کو کہتے سنا ۔ملکہ نسیم نے ذیشان کی بات پر استہزایہ انداز سے مسکراتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ۔۔۔ذیشان نے خود کو ماسٹر کے سامنے بودا سا جھوٹ بولتے پایا ۔ باو ! یہ وہ وقت تھا جب طوائف کو اپنے لیے طوائف سننے کی عادت تھی ۔۔مگر میں چاہ کر بیٹھی کہ اِس لفظ میں نہیں جینا ۔۔۔اور چاہ برباد کرے گی یہ سوچا نہیں تھا ۔۔ملکہ نسیم برآمدے کے پار چھوٹے سے صحن میں کسی کو کھوجنے میں مصروف بولتی چلی گئی۔ درد تواتر سے منظر نامہ بننے لگے ۔۔ملکہ نسیم کہتے گئی ۔میں ابھی عمر کے چودھویں برس میں تھی کہ میرے ہنر اور خوبصورتی نے دھوم مچا دی ۔۔میرے لواحقین بے انتہا خوش تھے ۔۔آنے والے بیس پچیس برس کا ساماں جو ہو گیا تھا ۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھے ریڈیو پر گانے کا موقع بھی مل گیا ۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔میری وجہ سے ہمارے گھر ۔۔۔حیران ناہونا ۔۔اب ہمارے لیے تو گھر ہی ہوتا ہے ۔ ذیشان شاہ دانستہ خاموش رہا ۔۔تو ملکہ نسیم پھر سے کہنے لگی ۔۔۔میری ماں کے تو گویا پائوں زمیں پر نہیں آسمانوں پر پڑنے لگے تھے ۔۔مجھ پر نثار ہونے والے بہت تھے ۔۔اور ایسے میں وہ آ گیا جو جس پر میں فدا ہوگئی۔۔۔کہا تھا نا ۔ نیا کچھ نہیں ہوتا ۔۔مگرسننے والے کے لیے۔۔نیاسہنے والے کے لیے ہوتا ہے ۔

ملکہ نسیم نے ایک دو لمحے کا توقف کیا ۔۔جیسے گلے میں پھنسے ماضی کے درد کو اندر اتارنے کی کوشش کی ہو ۔ پھر ۔۔پھر کیا ہوا ۔۔؟کیا سب کو خبر ہو گئی ؟ذیشان نے ملکہ کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے اکسائے رکھا ۔ ملکہ بھی فورا بولی ۔نہیں ! ۔جانے مجھ پر کیسا اعتبار تھا ۔۔اور جب اس نے کہا کہ ۔۔روز آتی ہو تم خیالوں میں ۔۔کیا تم میری زندگی میں بھی آ جاو گی ۔۔۔۔اور سچ کہوں بات وہی ہے ۔۔ایسا تو وہاں آنے والے کہا ہی کرتے تھے ۔۔وہ اس کے کہنے کا ڈھنگ ایسا ہوتا کہ اس کے جانے کے بعد میں بھی وہاں ہوتی ہی کب تھی ۔ ایک تمنا جینے لگی تھی کہ کوئی مجھے میڈم نہیں باجی کہے ۔۔پھر پتا چلا اہمیت لفظوں کی نہیں نیت کی ہوا کرتی ہے ۔۔۔! ملکہ نے توقف کیا تو اِرما چپل گھسیٹتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی ۔۔شاید پرانی کہانی بور کرنے لگی تھی ۔۔۔پھر ۔۔پھر کیا ہوا ؟ذیشان کی جلد بازی پر ملکہ نسیم ایک سادہ سی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔

تجھے آخری ورق پلٹنے کی بہت جلدی ہے ۔ہاں تو ! بس نہیں جانا کہ اہم دھوپ نہیں بلکہ موسم ہے ۔۔اس نے مجھے کہا میرے ساتھ بھاگ چل!۔۔اور میں!میں تو جیسے اِسی انتظار میں تھی ۔۔اور بس پھر وہی غم ِ زندگی کے سائے ۔۔اور آندھیوں جیسے لوگ ۔۔اپنے ٹھکانے سے کیا اٹھے ۔۔دنیا نے کہیں بیٹھنے ہی نہیں دیا ۔۔اور ہر ہر جگہ مجھے میری پہچان یاد دلاتے ہوئے باور کرایا کہ مجھے وہی کرنا چاہیے جو میں نہیں کرناچاہتی ۔۔ملکہ نسیم کا ابتدا ئی باب میں ہی ختم شد کا نعرہ لگا دینا ۔۔ذیشان کو بدہضمی کروا رہا تھا ۔۔۔۔تو کیا وہ ۔۔وہ اِرما اور روما کے ۔۔میرا مطلب ہے ۔۔؟

ملکہ نسیم نے سات رنگ کی خستہ حال چادر کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا ۔ہا ۔ہا۔۔ارے باو! وہ اِرما اور روما کا باپ نہیں تھا ۔۔وہ تومجھے چند روز اپنے ساتھ رکھ کر جانے کہاں چلا گیا ۔۔اور اِس سے پہلے کہ میں شرمندہ حال واپس لوٹ جاتی ۔۔اِن دونوں بچیو ں کا باپ مجھے ملا۔۔ملکہ کی آواز اب کہ سرگوشی میں ڈھل گئی تھی ۔۔وہ سامنے والے کمرے کی جانب ایک نظر دیکھ کر بولی ۔یہ بچیاں اِس بات سے بے خبر ہیں ۔۔مگر تیرے وعدے کے سامنے جھوٹ رکھنا نہیں چاہتی ۔۔کل کو تو بھی اِرما کے سامنے کوئی سوال لیے کھڑا ہو ۔۔تو جان لے کہ اِ ن کا باپ اس کا گہرا دوست تھا ۔۔جودوست کے دیے زخموں پر مرہم رکھنے چلا آیا ۔میرے اصرار پر نکاح بھی کر لیا ۔۔میں بہر حال دل کے لٹ جانے کے باوجود بھی خوش ہو گئی ۔۔مگر ۔۔کچھ ہی عرصہ بعد ہی وہ خوشی بھی عشق کے لگے دربار میں رسوا ہو گئی ۔۔اور بس  میں بچیوں کو لیے واپس یہاں آ گئی ۔۔مگر میرے نام نہاد شوہر کی مہربانی کہ کبھی کبھار ہی سہی وہ کچھ رقم دے دیا کرتا ۔۔مگر بچیو ں نے اسے کبھی دیکھا نہیں ۔اور کہا کہ نہیں رہے ۔۔اور جب ہمارے نہیں رہے تو پھر جہا ں بھی    رہے ۔ کیا میں ان سب وحشتوں کا ذکر کروں جنھوں نے چھ روز مجھے گھیرے رکھا ۔۔۔کیا میں تمھیں بتاوں کہ تم سے سرسری سا مل لینے کے بعد میں اچانک سے کتنا اکیلا ہو گیا ہوں ؟

ذیشان اور اِرما اسی میز کے ساتھ قریب قریب رکھی دو کرسیوں پر بیٹھے تھے۔۔جن میں سے کسی ایک پر بیٹھ کر وہ ارد گرد کی کوئی تڑکے والی خبر تلاش کیا کرتا تھا ۔۔مگر آج اس کی موجودگی نے گردو نواح میں رنگ ونور کا ہالہ بنا دیا تھا ۔جواب میں وہ بس مسکراتی رہی ۔۔ذیشان یہ دیکھ کر حیران ہوتا رہا کہ حسن کبھی اتنا بے نیاز سادہ بھی ہو سکتا ہے ۔ ذیشان نے اِرما سے اپنی گمبھیر آواز میں اظہارِ محبت کر لیا ۔۔تو اس نے پھر سے مسکراتے ہوئے سر جھکا لیا ۔۔۔۔لیکن مجھ سے یہ سوچ کر کوئی وعدہ کرو کہ میری ماں نے ایک وعدے پہ عمر گزار دی ۔اب زندگی کتنی بے زار ہے ۔بے شک تمھارا دل عشق کا امام ہے ۔۔میں ایمان لاتی ہوں مگر ۔۔مگر ۔۔یہ عشق میں مگر کیسے آ گیا ۔ذیشان نے مخمور لہجے میں کہا ۔اِرما بھی ملکہ نسیم کی ہنسی ہنسنے لگی ۔۔ذیشان حیران ہوا ۔۔ کیااِس کے پاس بھی درد کی دولت ہے ؟ ہاں! ضرورت ہے نا ہی چاہت ۔۔مگر ۔۔یہاں ایک مگر تو ہے ۔۔اور وہ یہی کہ عشق اور شادی میں سے مجھے کسے چننا ہے ۔۔ایک لمحے کے لیے ذیشان ٹھٹک کیا تھا ۔۔اسے سامنے اِرما کی جگہ روما بیٹھی دکھائی دی ۔۔یہ سوال تم نے نہیں ۔۔رومانے کیا ہے ۔۔بہر حال تمھیں عشق اور شادی میں سے کسی ایک کو چننے کی ضرورت نہیں ۔۔میں یہاں دونوں لیے بیٹھا ۔ مجھے زمانے کو اپنا نہیں بنانا۔۔میرے ساقی تم ہو توزمانہ بھی تمھی سے ہے ۔

 

ارما ! بات سنو ! تم نا اب سیدھے سیدھے بات کرنے کی عادت ڈالو! ۔۔یوں ۔۔میرا مطلب ہے جیسے عام عورتیں بات کیا کرتی ہیں ۔۔ارما نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔وہ اس وقت ذیشان کا ہاتھ تھامے سڑک پر نہیں آسمانوں پرکہیں قدم رکھ رہی تھی ۔ ہم دونوں بلاشبہ ایک جیسی شکل وصورت کی حامل ہیں ۔۔مگر اے کاش تمھاری پاس عقل بھی ہوتی ۔۔میں ۔۔میں تمھیں کیا کہوں ۔۔تم پھر سے شادی کرو گی ۔ہاں ! تو اور کیا کرو ۔۔وہ جو تم کرتی ہو ؟روما ایک قہقہہ لگاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔خیر تم نے مجھے اس سے ملنے کے لیے بلوایا ہے تو تعارف بنتا ہے ۔ اچھا تو بات یوں ہے محترم ذیشان شاہ ۔۔کہ اِرما اور میں جڑواں بہنیں ہیں ۔۔اور سترہ برس کی عمر میں ابھی تک اِرما کی تین شادیاں ہو چکی ہیں ۔۔۔اور میں ۔۔میں نے تو اپنی ماں کے چھوڑے ہوئے پیشے کو ترقی دی ہے ریستوران میں ذیشان کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے روما نے کسی تکلف کے بن بات شروع کر دی ۔اور میری ماں نے غلط کہا کہ ہمارا باپ کفالت کرتا ہے ۔۔ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔اِس گھر کی کفیل میں ہوں ۔۔۔اور کیا ہی مزے کی بات ہے کہ وہ چاہتی ہے۔۔ میں گھر سے ذرا دور ہی رہوں ۔۔تو اب آ پ فرمایئے ۔۔کیا ابھی بھی آپ کو اِرما سے شادی کرنی ہے ؟ ذیشان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر جاتا ہے ۔۔وہ ایک دو لمحے جو اس نے خود کو سنبھالنے میں لگائے ۔اِس دوران روما ٹانگ پر ٹانگ رکھے مسکراتی رہی ۔۔۔ہاں ! بالکل ۔ذیشان شاہ کے جواب پر روما کو ایک جھٹکا لگا ۔۔جب کہ اِرما کے چہرے پر الوہی مسکراہٹ پھیل گئی ۔ وہ دن اِرما کے لیے بہت خاص تھا ۔۔شام کو ملکہ نسیم اور روما کے درمیان ایک طویل گفتگو ہوئی ۔۔جھنجھلائی ہوئی روما اِرما کے روبرو تھی ۔۔۔۔تو شادی کے تین تجربات کے بعد بھی تم دونوں ماں بیٹی کو پتا نہیں چلا تم جہاں بھی جاو گی ۔۔بس ایک داستاں لے کر آنے کے لیے جاو گی ۔۔۔۔روما ۔میں تمھاری طرح عقل مندنہیں ۔۔مگر کیا یہ غلط نہیں کہ ماضی کے تجربات میں نئے کو پرکھا جائے ۔اِرما نے رسان سے آگے بڑھتے ہوئے روما کے تنتاتے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔اِرما کے اِس انداز پر روما ایک گہری سانس لیتے ہوئے بیٹھ گئی ۔۔کچھ لمحوں کے توقف کے بعد وہ آہستگی سے بولی ۔۔اِرمی ! تم چودہ برس کی تھی ۔۔آنے والے پہلے مالدار رشتے کو ہاں کہہ کر تمھیں رخصت کر دیا گیا ۔۔اور ۔۔۔۔۔۔یہاں ! ماضی کو کریدنے کا کیا فائدہ ۔۔؟ارما رنجیدگی سے بولی، روما نے جھٹ جھپی ڈالتے ہوئے کہا ۔ تمھاری نئی شادی سے پہلے ماضی کا ایک تجزیہ تو بنتا ہے ۔شادی کی بات سن کر اِرما خوشی سے روما کی بات میں شریک ہو گئی ۔ہاں تو پھر ! ہاں !  تم سے دگنی عمر والے کاچند ہی دنوں میں تم سے دل بھر گیا ۔۔اور ایک روزکچھ پیسے اور طوائف زادی کا ٹیگ دے کر گھر سے باہر کیا۔۔تم بتاوکہ چھوڑنے کے لیے برا بنانا ضروری ہوتا ہے ۔۔؟روما بات آگے بڑھاتی گئی ۔۔چھ ماہ میں ہی پہلے دکھ کے مداوے کے لیے اماں نے تمھاری دوسری شادی کر دی ۔۔اِس بار امارت کوچھوڑ کر تمھارا ہم عمر شخص چنا ۔۔تو کیا ہوا۔اس مڈل کلاس انسان کی محبت کیسی تھی ۔ وہ بزدل انسان تمھارے لیے نہیں بلکہ تم اس کے لیے تھیں ۔۔۔ ایک ٹھوکر بھی لگ جائے تو درد کا ساماں تمھی کو کرنا تھا ۔۔مگرہوا کیا۔۔جب تمھارے جہیز میں ملے پیسے ختم ہوگئے۔۔ تب اسے خاندان کا دباو اور اپنااکیلا پن یاد آ گیا۔اس بارکے دھکے میں تمھارے لیے مجبوری نام کی عزت کی ایک دھجی بھی تھی۔۔اور ۔۔۔روما ایک لمحے کو سانس لینے کے لیے رکی ۔۔ اِرما نے بے تابی سے روما کو دیکھا ۔۔جیسے کہہ رہی ہو کہ جلد از جلد ذیشان تک پہنچو ۔روما یہ دیکھ کر تاسف سے سر ہلاتے اٹھنے لگی تھی ۔۔کہ اسے جھٹکا لگا ۔۔۔کیونکہ اس کا ہاتھ ابھی تک اِرما کے ہاتھ میں تھا ۔۔رومانے پھر گہری سانس لی ۔۔ کہ اِرما کی طرف سے بات جاری رکھنے کا اصرار تھا ۔۔اور کیوں تھا یہ روما نے اِرما کے چہرے پر ذیشان نامی تحریر میں واضح پڑھ لیا تھا ۔۔۔تو اب تم کیا اپنی زندگی کے سولہویں برس ہی کھائے گئے تیسرے دھوکے یا دھکے کا بھی خلاصہ چاہتی ہو ۔۔کہ ایک عورت تمھیں اپنے شادی شدی بیٹے کو کنوارہ دکھا کر صرف اِس لیے لے گئی کہ اسے اپنی بیماری میں تم سے خدمت لینی تھی ۔۔اور اس کا بیٹا اپنی بیوی او بچوں کے ساتھ خوش وخرم جی رہا تھا اور تم نام نہاد بیوی بن کر اس کی ماں کی بلامعاوضہ نرسنگ کرتی رہیں۔روما اٹھ کا جانے لگی تو اِرما نے آس بھری نگاہ سے روما کو دیکھا ۔۔روما نے بھی ایک کوشش اور کر ہی ڈالی ۔ جو کہ سامنے بیٹھی تھی ۔ذیشان ارما کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا ۔تم ۔۔تم شادی سے انکار کیسے کر سکتی ہو ؟۔۔۔اور میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی ۔۔اوہ ! ہاں ! تم تو دراصل مجھ پر احسان کرنے جا رہے تھے ۔۔مگر ۔۔ذیشان شاہ مجھے اب شادی شادی نہیں کھیلنا ۔۔ذیشان حیرت سے منہ کھولے اِرما کو دیکھ رہا تھا ۔۔کیونکہ آج اس کا پہناوا بھی روما جیسا تھا ۔۔بلکہ بات چیت کا ڈھنگ بھی بد ل گیا تھا۔۔ناک میں موتی نا ہوتا تو ذیشان یہی سمجھتا کہ روما اس کے سامنے ظالم سماج بنی بیٹھی ہے ۔انکار کی وجہ پوچھ سکتا ہوں ۔۔؟اِرما ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ایک توقف کے بعد بولی ۔تم میرے ایک سوال کا جواب دے دو ۔تین برسوں میں میری اور روما کی زندگی میں تین مرد آئے ۔۔اسے کسی نے طوائف نہیں کہا ۔۔جب کہ میں شادی کرنے کے باوجودہر بار طوائف کا لفظ سنا کر نکالی گئی ہوں ۔۔۔اور ۔۔ذیشان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اِرما بولی ۔۔۔۔اور ۔۔اور اس روز تم نے کہا میں اب اپنی بات کرنے کا انداز تبدیل کروں ۔۔۔ذیشان شاہ تمھیں تو مجھ میں شادی سے پہلے طوائف دکھائی دے گئی ۔۔۔اور مجھے نا ملکہ نسیم کی طرح بیس برس بعد کسی صحافی کے سامنے نہیں بیٹھنا ۔ارما اٹھنے ہی لگی تھی کہ ذیشان نے تڑپ کر اس کا ہاتھ تھام کر روکنے کی آخری کوشش کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔لیکن ارما میں ۔۔میں توتمھیں جانتا ہوں ۔۔پہچانتا ہوں ۔۔اِرما ایک جھٹکے سے ذیشان کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے چھڑا کر بات مکمل کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔۔ہاں ! مگر ذیشان شاہ ۔۔سمیت میرے ۔۔ہر انسان دوسرے کو اتنا ہی جانتا ہے ۔۔جتنی اس کو چاہ ہو ۔۔ اسی قدر پہچانتا ہے ۔۔جتنی ضرورت ہو ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top