تحریر: چوہدری فرخ شہزاد
بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے 15سالہ اقتدار کی کشتی جب عوام کے سمندر میں ہچکولے کھانے لگی تو 50 بلین ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ جس میں انہوں نے انڈیا اور پاکستان دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا وہ بھی انہیں عوام کے غم و غصے سے نہ بچا سکی اور انہیں جان بچانے کے لیے ملک سے فرار ہونا پڑا۔ آخری لمحات میں ان کے سامنے دو ہی راستے تھے اقتدار بچائیں یا جان۔ انہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ جب عوام کا سمندر وزیراعظم ہائوس کے باہر دھاوا بولنے کے لیے جمع تھا تو آرمی چیف نے انہیں 45 منٹ کی ڈیڈ لائن دی کہ اگر وہ نکلنا چاہیں تو انہیں آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے محفوظ راستہ دیا جائے گا مگر حسینہ چاہتی تھی کہ جانے سے پہلے انہیں ٹی وی پر قوم سے خطاب کا موقع مل جائے مگر آرمی چیف نے انہیں باور کرایا کہ تب تک پانی سر سے گزر جائے گا۔ لہٰذا ان کی آخری خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ آبدیدہ ہو کر بھارت سدھار گئیں۔اس سال جب وہ مسلسل چوتھی بار وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ان کے خلاف جو لاوا پک رہا تھا اس میں مزید شدت آ گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مخالف سیاسی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا اس کے باوجود انہوں نے الیکشن کی رسم پوری کی حالانکہ پوری دنیا کا میڈیا الیکشن پر سوال اٹھاتا رہا اصل میں اقتدار میں آتے ہی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف آہنی کریک ڈان کے لیے عدالتوں کا سہارا لیا اور چن چن کر سیاسی دشمنوں کو سزائے موت دی گئی جماعت اسلامی کے پروفیسر غلام اعظم کو پھانسی دی گئی تو ان کی عمر 80 سال سے زائد تھی ان پر الزام تھا کہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی 1971 میں انہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا یہ محض ایک مثال ہے۔ حسینہ واجد سمجھتی تھی کہ ملکی ترقی کے لیے مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ضروری ہے اس لیے انہوں نے جماعت اسلامی کو ملک سے ختم کر دیا اسی طرح اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں عمر قید کی سزا دے دی۔ کسی مخالف کو اٹھنے یا بولنے نہیں دیا۔ کوٹہ سسٹم کے ذریعے ایسی پالیسی بنائی گئی کہ تمام سرکاری ملازمتوں پر ان کی پارٹی کے من پسند لوگوں کا قبضہ ہو جائے تا کہ ان کی پارٹی کے علاوہ کوئی اور سیاستدان کا وجود ہی نہ ہو۔ یہ ایک اشتعال انگیز سیاست تھی جو زیادہ دیر نہ چل سکی۔ان کی اشتعال انگیزی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ جب انڈین وزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش کا سرکاری دورہ کیا تو اس موقع پر انہیں حسینہ کی طرف سے ایک گولڈن فوٹو فریم کا تحفہ دیا گیا یہ تحفہ کیا تھا سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پر دستخط کرنے کی تقریب کی فوٹو تھی جس میں پاکستان کے جنرل نیازی سرنڈر کے پروانے پر دستخط کر رہے تھے اور ان کے ساتھ انڈین جنرل اروڑہ فاتحانہ انداز میں براجمان تھے یہ وہی موقع تھا جب جنرل نیازی نے اپنا سروس ریوالور اپنی بیلٹ سے نکال کر انڈین جنرل کے آگے رکھ دیا تھا۔ انڈیا اور بنگلہ دیش دونوں نے اس تصویر کے تبادلے کے ذریعے پاکستان کے زخموں پر 40 سال بعد پھر سے نمک چھڑک دیا تھا۔
ڈھاکہ یونیورسٹی سے شروع ہونے والے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج
کی قیادت 26سالہ طالبعلم ناہید اسلام کے ہاتھ میں تھی جو ایک سکول ٹیچر کا بیٹا ہے۔
یہ غیر سیاسی تحریک تھی کیونکہ سیاسی پارٹی تو کوئی میدان میں موجود ہی نہیں تھی جو
حسینہ کو چیلنج کر سکتی۔ لیکن جب اس تحریک میں لوگ مرنا شروع ہوئے تو پورا ملک اٹھ
کھڑا ہوا حالانکہ کوٹہ سسٹم پر عدالت کے فیصلے کے ذریعے عمل درآمد روک دیا گیا تھا
مگر تحریک کا مطالبہ اب وزیراعظم کے استعفیٰ کا تھا یہ سارا کام دو ہفتے سے کم عرصے
میں مکمل ہو گیا۔تاریخ میں پہلی دفعہ سنا ہے کہ سٹوڈنٹ رہنما آرمی چیف سے مل رہے ہیں
اور نگران وزیراعظم کا نام تحویز کرتے ہیں جو منظور کر لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مائیکرو
فنانس کے ذریعے غربت کے خاتمے کا ماڈل پیش کرنے والے گرامین بنک کے بانی ڈاکٹر محمد
یونس جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور دنیا بھر میں جن کے ماڈل کو اپنایا جا
رہا ہے وہ اب بنگلہ دیش کے عبوری وزیراعظم ہیں لیکن ان کی مقبولیت سے حسینہ اتنی خوف
زدہ تھی کہ ان پر کرپشن کے کیس بنا کر انہیں بھی جیل میں ڈالا گیا یہ شاید پہلا نوبل
انعام یافتہ شخص تھا جسے بنگلہ دیش میں غربت کے خاتمے پر سزا دی گئی ڈاکٹر یونس فرانس
میں جلا وطنی پرمجبور تھے۔میرے اس کالم سے نام اور مقام ہذف کر دیا جائے تو جو کچھ
اس میں لکھا گیا ہے یہ قاری کو پاکستان کی کہانی محسوس ہو گی ایشیائی جمہوری نظام شاید
ہر جگہ ایسے ہی چلتا ہے۔ سیاستدان پاکستان کا ہو یا بنگلہ دیش کا ان کی ذہنی آمریت
لامحدود ہوتی ہے وہ پہلے تو تاحیات اقتدار چاہتے ہیں اگلے مرحلے پر ان کی کوشش ہوتی
ہے کہ اپنی آنے والی نسل کو وراثت میں اقتدار دے کر جائیں گورننس کی ساری خرابیاں اسی
سوچ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا نے ایک منفی مثال قائم کر دی ہے کہ
کس طرح کسی حکمران کو غیر آئینی طریقے سے محکوم بنایا جا سکتا ہے۔ یہ نظیر علاقائی
ممالک کے لیے کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔ البتہ ارد گرد کے حکمرانوں کو اس میں عبرت سیکھنے
کا کافی سامان موجود ہے تا کہ وہ اپنی طرز حکمرانی پر نظرثانی کریں۔ بانی بنگلہ دیش
شیخ مجیب الرحمان بھی ڈھاکہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ لیڈر تھے جنہوں نے قائداعظم کے تحریک
پاکستان کے دوران یونیورسٹی کے دورے کے دوران جب اردو کو سرکاری زبان قرار دیا تو مجیب
الرحمان نے اسی وقت کہا تھا کہ انہیں یہ نامنظور ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں
50 بلین زرمبادلہ کمانے والی فیکٹریوں کی بندش کے بعد انڈیا راتوں رات متحریک ہو چکا
ہے کہ بنگلہ دیش کا ایکسپورٹ پوٹینشل متاثر ہونے سے انڈیا ان کی جگہ لے لے۔ انڈیا چاہتا
ہے کہ عالمی بازار میں اب بنگلہ دیش کا حصہ انہیں مل جائے جبکہ ہمارے ہاں کسی کو یاد
بھی نہیں ہے یہاں ہر کوئی محو خواب ہے۔ یہاں معاشی بحالی کے بجائے سارا زور ایسی آئینی
ترمیموں پر ہے جس میں مخالفین کو کمزور کیا جا سکے۔ بنگلہ دیش سے سبق سیکھیں۔